• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 600050

    عنوان:

    جمعہ كی اضافی اذان كا ثبوت

    سوال:

    بخاری شریف کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان غنی نے زرواء نامی مقام پر جمعہ کے دن تیسری اذان شروع فرمائی جو اس سے پہلے نہیں دی جاتی تھی ،یہاں یہ خلجان پیدا ہوا کہ اگر حضرت عثمان غنی نے کوئی نئی چیز شروع فرمائی تو دیگر صحابہ نے خاموشی کیوں اختیار کی ، کہیں ایسا تو نہیں کہ عثمان نے کوئی نئی اذان شروع نہ کی ہو بلکہ مسجدِ نبوی میں دی جانے والی جمعہ کی پہلی اذان کو زوراء نامی جگہ میں دینے کا حکم دیا ہو تاکہ سب کو سنائی دے ! ۔اور اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت عثمان نے کوئی نئی اذان شروع فرمائی تھی تو آج کل ہمارے زمانے میں وہ اذان کیوں نہیں دی جارہی ہے ؟ بہرکیف اس حدیث کی مستند تشریح فرما کر ممنونیت کا موقع دیں۔ فقط مستفتی ریاض احمد انصاری ، بنگلور نوٹ: بخاری میں حدیث نمبر 912اور913ہے ۔

    جواب نمبر: 600050

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:49-12t/sd=3/1442

     حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب نمازیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی اور مسلمان دور دور تک پھیل گئے ، اور ممبر کی اذان کافی نہیں رہی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مقام زوراء میں ایک اور اذان کا اضافہ کیا اور یہ اضافہ صحابہ کرام کی موجودگی میں کیا جس پر کسی نے نکیر نہیں فرمائی ، جس کی وجہ سے گویا اس اذان کی مشروعیت پر صحابہ کرام کا اجماع ہوگیا، لہذا یہ اذان بھی سنت معمول بن گئی ، آج کل جمعہ کے دن جو پہلی اذان دی جاتی ہے ، یہ وہی اذان ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے شروع فرمائی تھی ، اس اذان کو مقدم ہونے کی وجہ سے اذان اول اور بعد میں اضافہ کرنے کے اعتبار سے اذان ثالث بھی کہا جاتا ہے ۔

    قال ابن عابدین : (قولہ فی الأصح) قال فی شرح المنیة. واختلفوا فی المراد بالأذان الأول فقیل الأول باعتبار المشروعیة وہو الذی بین یدی المنبر لأنہ الذی کان أولا فی زمنہ - علیہ الصلاة والسلام - وزمن أبی بکر وعمر حتی أحدث عثمان الأذان الثانی علی الزوراء حین کثر الناس. والأصح أنہ الأول باعتبار الوقت، وہو الذی یکون علی المنارة بعد الزوال. اہ. والزوراء بالمد اسم موضع فی المدینة۔(رد المحتار: ۱۶۱/۲، باب الجمعة، دار الفکر، بیروت ) قال ابن حجر: قولہ زاد النداء الثالث فی روایة وکیع عن بن أبی ذئب فأمر عثمان بالأذان الأول ونحوہ للشافعی من ہذا الوجہ ولا منافاة بینہما لأنہ باعتبار کونہ مزیدا یسمی ثالثا وباعتبار کونہ جعل مقدما علی الأذان والإقامة یسمی أولا ولفظ روایة عقیل الآتیة بعد بابین أن التأذین بالثانی أمر بہ عثمان وتسمیتہ ثانیا أیضا متوجہ بالنظر إلی الأذان الحقیقی لا الإقامة۔ (فتح الباری: ۳۹۴/۲، باب الأذان یوم الجمعة، داار المعرفة، بیروت )( فتاوی رحیمیہ: ۸۴/۶، دار الاشاعت، کراچی ) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند