عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 147902
جواب نمبر: 147902
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 510-1049/Sn=10/1438
(۱) ”مناظرہٴ باگڑ سرگانہ“ نامی ایک کتاب ہے، اس میں مشہور عالم دین مولانا محمد عبدالستار صاحب تونسوی نے شیعوں کے ساتھ جو مناظرہ ملتان میں کیا تھا اس کی مکمل روداد ہے، اس کتاب کا مطالعہ اس موضوع کے لیے بہت مفید ہوگا؛ یہ کتاب www.ahle-haq.net.tcسے ڈاوٴن لوڈ کرسکتے ہیں۔
(۲) اس سوال کے تفصیلی جواب کے لیے سیرة المصطفی (عنوان: باغِ فدک کی حقیقت) اسی طرح تحفہٴ اثنا عشریہ اردو، (ص: ۵۳۷، وبعدہ) کا مطالعہ کریں، یہاں مختصراً صرف اتنا عرض ہے کہ متعدد صحیح روایات میں یہ مضمون آیا ہے کہ گروہِ انبیاء نہ کسی کے مال کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ان کا کوئی وارث بنتا ہے، انبیاء جو کچھ چھوڑجائیں وہ سب فی سبیل اللہ صدقہ اور خیرات ہے، جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے خیبر، فدک اور بنو نضیر کی جائدادوں سے اپنا حصہ طلب کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ حدیث سنائی اور فرمایا یہ جائدادیں تو وقف ہیں، ان میں میراث جاری نہ ہوگی؛ ہاں جس جس کام مثلاً اہل وعیال کے نفقہ وغیرہ میں جناب نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے ہم بھی اسی طرح خرچ کرتے رہیں گے، رواةِ حدیث نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد دو طرح کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں، بعض روایات میں ہے ”فغضبت فاطمة“ اور بعض میں ہے فوجدت فاطمة“ جن کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ اس پر ناراض ہوئیں؛ لیکن لفظ وجدت میں یہ بھی احتمال ہے کہ راوی کا منشا یہ ہو کہ حضرت فاطمہ غمگین ہوئیں اور اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنا حصہٴ میراث طلب کیا اور صدیق اکبر نے ان کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنادی تو عجب نہیں کہ ان کو اس طلبگاری پر ایک گونہ ندامت اور رنج ہوا ہو، بہرحال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا وہ بلاشبہ صحیح اور درست تھا، قرآن وحدیث کے بالکل موافق تھا؛ باقی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کیوں ناراض یا غمگین ہوئیں، اس کی کوئی یقینی وجہ روایات میں مذکور نہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ بات بھی درست نہیں کہ اس واقعے کے بعد ناراضگی کی وجہ سے انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تکلم نہیں فرمایا اور اسی حال میں آپ انتقال فرماگئیں؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ علیہ الصلاة والسلام کی وفات کے بعدسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت دل برداشتہ تھیں اور اسی دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یہ واقعہ بھی پیش آیا جس سے آپ کو صدمہ پہنچا، نیز اس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی علالت کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ربط ضبط میں فرق آگیا تھا اور ملنا جلنا بدستور سابق باقی نہ رہا، معاذ اللہ یہ نہ تھا کہ سلام وکلام کی بھی نوبت نہ آئی ہو، ایسی متارکت تو تین دن سے زیادہ جائز نہیں، چہ جائیکہ تمام عمر کے لیے ہو، نیز سب کو معلوم ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے محرم نہ تھے جن کے ساتھ ہمیشہ آپ کو کلام وسلام کا اتفاق ہوتا ہو اور پھر اس واقعے کی وجہ سے ناراض ہوکر ترک کردیا گیا ہو، کیوں کہ غیرمحرم سے بلاضرورت سلام وکلام درست ہی نہیں ہے۔
حاصل یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یکسوئی اور علاحدگی کی علت دراصل یہ ندامت اور اپنی علالت اور صدمہٴ مفارقت پدری ونبوی تھی، اس سلسلے میں جو بھی روایات وارد ہوئی ہیں، ان میں علماء نے غور کرکے یہی معنی ومفہوم اخذ کیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیں سیرة المصطفی ۳/۲۴۵وبعدہ، ط: مکتبہ علمیہ سہارنپور)
(۳) یہ بات قطعاً غلط ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے خوش نہیں تھے؛ بلکہ سچ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خلافت کے سب سے زیادہ حق دار سمجھتے تھے اور آپ کو خلیفہٴ برحق سمجھتے تھے اور آپ نے ان کے ہاتھ بیعت بھی کی؛ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ شکایت تھی کہ خلافت کے مشورے میں انھیں شریک نہیں کیا گیا؛ لیکن بعد میں جب حضرت ابوبکر رضیاللہ عنہ نے اپنی بات ان کے سامنے رکھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دل صاف ہوگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے برسرمنبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے احق بالخلافت ہونے کا اظہار فرمایا۔ بخاری شریف کی ایک مفصیل روایت میں یہ واقعہ مذکور ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ابتداء خلافت سے لے کر انتہا تک اور اسی طرح عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں از اول تا آخر امورِ مہمہ میں خلفائے ثلاثہ (حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم) کے مشیر خاص اور شریک رہے اور جس قدر لڑائیاں ہوئیں ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مشورہ شامل رہا اور مالِ غنیمت میں سے اپنا حصہ لیتے رہے اور نمازوں میں ان کی اقتداء کرتے رہے اور مسائل دینیہ میں ان کے ہم نوا رہے۔ یہ سب اس امر کی واضح دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو دل سے حق سمجھتے تھے، اس سے ناخوش نہ تھے، اگر یہ بات ثابت بھی ہوجائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی لڑائی میں بجسدہ شریک نہیں ہوئے تب بھی اس سے یہ استدلال ہرگز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خلافت سے خوش نہ تھے، خلافت سے راضی اور خوش ہونے کے بے شمار دلائل موجود ہیں جن کا اوپر اجمالاً ذکر کیا گیا ہے، تفصیل کے لیے سیرة المصطفی اور تحفہٴ اثنا عشریہ وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند