• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 147902

    عنوان: میرا ایک شیعہ دوست ہے جو مجھ سے بہت زیادہ سوال کرتا رہتاہے جس کا جواب دینا میرے لیے مشکل ہوتا ہے

    سوال: میرا ایک شیعہ دوست ہے جو مجھ سے بہت زیادہ سوال کرتا رہتاہے جس کا جواب دینا میرے لیے مشکل ہوتاہے۔ میں اس کے سوالات آپ کو بھیج رہاہوں، امید ہے کہ آپ تشفی بخش جواب دیں گے۔ اہم نوٹ؛ یہ سوالات کسی کو مشرک یا بے دین ثابت کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ہم دونوں اچھے دوست ہیں اور میں ان کے اندر بہتری دیکھ رہاہوں اور میں اس کو نیکی طرف لانا چاہتاہوں۔ (۱) اس کے پاس ایک کتاب ہے جس میں ایک شیعہ اور ایک سنی عالم کے درمیان مکالمہ ہے، اس کتاب میں دونوں کے خطوط ہیں اور آخر میں یہ ثابت کیا ہے کہ سنی عالم نے قبول کرلیا کہ شیعہ کے نظریات صحیح اور درست ہیں۔کتاب کا نام ”المراجعات “(Al Muraja'at )ہے اور مصنف عبد الحسین شرف الدین المصاوی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس کوئی ایسی کتاب ہے جو اس کے خلاف ہو ؟ میرا مطلب دو عالموں کے درمیان مکالمہ ہو اور اس میں یہ ثابت ہو کہ سنی صحیح ہیں اور شیعہ غلط ہیں؟براہ کرم، کتاب کا نام بتائیں اور ڈاؤن لنک بتائیں اگر ممکن ہو ۔ (۲) اس کا یقین ہے کہ بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنی وراثت مانگیں تو انہوں نے ان کی گذارش مسترد کردی ،پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلیفہ ثانی حضرت عمررضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا تو انہوں نے ان کی گذارش مسترد کردی اور مالی مدد کے طورپر ان کو دوسری چیز دی ۔ سوال یہ ہے کہ وہ بخاری کی ایک حدیث کاحوالہ دیتاہے کہ بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کے بعد سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کبھی بات نہیں کی۔ کیا آپ اس بارے میں مزید روشنی ڈال سکتے ہیں؟اور حدیث کی صحیح وضاحت کیا ہے؟(کیا یہ بخاری کی حدیث ہے)۔ (۳) میرے شیعہ دوست کا یقین ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئے ، کیوں کہ وہ خلافت سے خوش نہیں تھے تاآں کہ وہ خود خلیفہ بن گئے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات درست ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت اور اپنی خلافت کے درمیان کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئے،کیا یہ بات درست ہے؟براہ کرم، وجہ بتائیں۔اگر یہ غلط بات ہے تو حوالہ دیں۔ ایک بار پھر عرض یہ ہے کہ ان سوالات سے کوئی پریشانی، کوئی جھگڑا یا کوئی غلط ارادہ نہیں ہے، میں صرف اپنے شیعہ دوست کو یہ یقین دلا نا چاہتاہوں کہ وہ اس کو صحیح راستے پر آنا چاہئے اور غلط عقائد ترک کردینا چاہئے؟میں ، الحمد للہ، دیوبند کا زبردست حامی ہوں، اور مجھ امید ہے کہ آپ میری رہنمائی کریں گے۔ آمین میں قمرالدین عابد، پاکستان سے ہوں،لیکن اس وقت میں واہون ، چین میں ، پی ایچ ڈی کا ریسرچ اسکالر ہوں۔

    جواب نمبر: 147902

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 510-1049/Sn=10/1438

     

    (۱) ”مناظرہٴ باگڑ سرگانہ“ نامی ایک کتاب ہے، اس میں مشہور عالم دین مولانا محمد عبدالستار صاحب تونسوی نے شیعوں کے ساتھ جو مناظرہ ملتان میں کیا تھا اس کی مکمل روداد ہے، اس کتاب کا مطالعہ اس موضوع کے لیے بہت مفید ہوگا؛ یہ کتاب www.ahle-haq.net.tcسے ڈاوٴن لوڈ کرسکتے ہیں۔

    (۲) اس سوال کے تفصیلی جواب کے لیے سیرة المصطفی (عنوان: باغِ فدک کی حقیقت) اسی طرح تحفہٴ اثنا عشریہ اردو، (ص: ۵۳۷، وبعدہ) کا مطالعہ کریں، یہاں مختصراً صرف اتنا عرض ہے کہ متعدد صحیح روایات میں یہ مضمون آیا ہے کہ گروہِ انبیاء نہ کسی کے مال کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ان کا کوئی وارث بنتا ہے، انبیاء جو کچھ چھوڑجائیں وہ سب فی سبیل اللہ صدقہ اور خیرات ہے، جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے خیبر، فدک اور بنو نضیر کی جائدادوں سے اپنا حصہ طلب کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ حدیث سنائی اور فرمایا یہ جائدادیں تو وقف ہیں، ان میں میراث جاری نہ ہوگی؛ ہاں جس جس کام مثلاً اہل وعیال کے نفقہ وغیرہ میں جناب نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے ہم بھی اسی طرح خرچ کرتے رہیں گے، رواةِ حدیث نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد دو طرح کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں، بعض روایات میں ہے ”فغضبت فاطمة“ اور بعض میں ہے فوجدت فاطمة“ جن کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ اس پر ناراض ہوئیں؛ لیکن لفظ وجدت میں یہ بھی احتمال ہے کہ راوی کا منشا یہ ہو کہ حضرت فاطمہ غمگین ہوئیں اور اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنا حصہٴ میراث طلب کیا اور صدیق اکبر نے ان کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنادی تو عجب نہیں کہ ان کو اس طلبگاری پر ایک گونہ ندامت اور رنج ہوا ہو، بہرحال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا وہ بلاشبہ صحیح اور درست تھا، قرآن وحدیث کے بالکل موافق تھا؛ باقی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کیوں ناراض یا غمگین ہوئیں، اس کی کوئی یقینی وجہ روایات میں مذکور نہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ بات بھی درست نہیں کہ اس واقعے کے بعد ناراضگی کی وجہ سے انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تکلم نہیں فرمایا اور اسی حال میں آپ انتقال فرماگئیں؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ علیہ الصلاة والسلام کی وفات کے بعدسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت دل برداشتہ تھیں اور اسی دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یہ واقعہ بھی پیش آیا جس سے آپ کو صدمہ پہنچا، نیز اس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی علالت کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ربط ضبط میں فرق آگیا تھا اور ملنا جلنا بدستور سابق باقی نہ رہا، معاذ اللہ یہ نہ تھا کہ سلام وکلام کی بھی نوبت نہ آئی ہو، ایسی متارکت تو تین دن سے زیادہ جائز نہیں، چہ جائیکہ تمام عمر کے لیے ہو، نیز سب کو معلوم ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے محرم نہ تھے جن کے ساتھ ہمیشہ آپ کو کلام وسلام کا اتفاق ہوتا ہو اور پھر اس واقعے کی وجہ سے ناراض ہوکر ترک کردیا گیا ہو، کیوں کہ غیرمحرم سے بلاضرورت سلام وکلام درست ہی نہیں ہے۔

    حاصل یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یکسوئی اور علاحدگی کی علت دراصل یہ ندامت اور اپنی علالت اور صدمہٴ مفارقت پدری ونبوی تھی، اس سلسلے میں جو بھی روایات وارد ہوئی ہیں، ان میں علماء نے غور کرکے یہی معنی ومفہوم اخذ کیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیں سیرة المصطفی ۳/۲۴۵وبعدہ، ط: مکتبہ علمیہ سہارنپور)

    (۳) یہ بات قطعاً غلط ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے خوش نہیں تھے؛ بلکہ سچ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خلافت کے سب سے زیادہ حق دار سمجھتے تھے اور آپ کو خلیفہٴ برحق سمجھتے تھے اور آپ نے ان کے ہاتھ بیعت بھی کی؛ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ شکایت تھی کہ خلافت کے مشورے میں انھیں شریک نہیں کیا گیا؛ لیکن بعد میں جب حضرت ابوبکر رضیاللہ عنہ نے اپنی بات ان کے سامنے رکھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دل صاف ہوگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے برسرمنبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے احق بالخلافت ہونے کا اظہار فرمایا۔ بخاری شریف کی ایک مفصیل روایت میں یہ واقعہ مذکور ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ابتداء خلافت سے لے کر انتہا تک اور اسی طرح عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں از اول تا آخر امورِ مہمہ میں خلفائے ثلاثہ (حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم) کے مشیر خاص اور شریک رہے اور جس قدر لڑائیاں ہوئیں ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مشورہ شامل رہا اور مالِ غنیمت میں سے اپنا حصہ لیتے رہے اور نمازوں میں ان کی اقتداء کرتے رہے اور مسائل دینیہ میں ان کے ہم نوا رہے۔ یہ سب اس امر کی واضح دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو دل سے حق سمجھتے تھے، اس سے ناخوش نہ تھے، اگر یہ بات ثابت بھی ہوجائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی لڑائی میں بجسدہ شریک نہیں ہوئے تب بھی اس سے یہ استدلال ہرگز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خلافت سے خوش نہ تھے، خلافت سے راضی اور خوش ہونے کے بے شمار دلائل موجود ہیں جن کا اوپر اجمالاً ذکر کیا گیا ہے، تفصیل کے لیے سیرة المصطفی اور تحفہٴ اثنا عشریہ وغیرہ کا مطالعہ کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند