• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 145276

    عنوان: غیر مسلموں کو مرعوب کرنے کے لیے 12 ربیع1 کا جلوس؟

    سوال: ۱۔عرض ہے کہ ہمارے گاؤں میں ۲۱ ربیع الاول کے موقعہ پر جھنڈا اور جلوس نہیں ہوتا تھا، اب کچھ لوگ جھنڈا اور جلوس نکلنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ غیر مسلم اپنے تہواروں میں بہت دھوم دھام کرتے ہیں، گانے بجانے پر مشتمل جلوس نکالتے ہیں جس سے مسلمان مرعوب ہو جاتے ہیں۔ لہذا غیر مسلموں کو مرعوب کرنے کے لئے مسلمانوں کو بھی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقعہ پر عظیم جلوس اور جھنڈا نکلنا چاہیے ، کیا ایسے حالات میں جھنڈا اور جلوس نکلنے کی ازازت ہے ؟ ۲-کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام راضی اللہ عنہم اور تابعین و تبع تابعین کے دور میں جھنڈا اور جلوس کا کوئی ثبوت ملتا ہے ؟ ۳-جلوس میں اکثر ڈی جے اور باجہ وغیرہ بھی ہوتا ہے لہذا ایسے جلوس کا شرعی حکم کیا ہے ؟

    جواب نمبر: 145276

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1149-1111/Sd=2/1438

     

    (۱، ۳) ۱۲ /ربیع الاول کو عید میلاد النبی منانا بالکل بے اصل ہے، شریعت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور اس وقت تو اس میں بہت سے عملی اور اعتقادی منکرات اور خرافات بھی شامل ہوگئے ہیں، اس لیے عید میلاد النبی منانا ناجائز و بدعت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین کے زمانے میں اس طرح کے جلسے جلوس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، یہ بہت بعد کی ایجاد ہے، غیروں کو مرعوب کرنے کے لیے خلافِ شرع کام جائز نہیں ہوجائے گا، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سنت اور شریعت کے مطابق زندگی گذاریں، اپنے اخلاق و کردار کو بہتر سے بہتر بنائیں، معاشرے پراصل اسی کا اثر پڑتا ہے۔ نیز ۱۲/ ربیع الاول کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت ہونا محض مشہور ہے، ورنہ جمہور محدثین، موٴرخین اور علمائے کرام کے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولاد ت شریفہ۸/ یا ۹/ ربیع الاول کو ہوئی ہے اور بارہ ربیع الاول در اصل آپ کی وفات کی تاریخ ہے، ایسی صورت میں وفات کے دن خوشی منانا لازم آئے گا۔ قال المقریزي: الموالِدُ أحدِثَت في القَرنِ الرَّابع الھجري، و أوَّلُ مَن أحدَثَھا العبیدیُّون الذین حَکَمُوا ”مصر“ في القرنِ الرَّابع الھجري۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ إنَّھم أحدَثُوا ستةَ موالید: میلادُ النبي صلی اللہ علیہ وسلم، ومیلادُ علي، ومیلادُ فاطمة، ومیلادُالحسن، ومیلادُ الحسین -رضی اللہ عنہم-، والسادسُ: میلادُ الحاکم الموجود من حکَّامِھم، فإذن ھذہ الاحتفالات و تخصیص تلک المناسبات بأعمالٍ مخصوصةٍ؛ ھذا ما حَصَلَ في القرنِ الثلاثة الأول التي ھي خیرُ القرون التي قال فیھا الرسولُ صلی اللہ علیہ وسلم: خیرُ القرون قرني، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم۔ الصَّحابةُ لایوجدُ عندھم ھذا الاحتفالُ بالموالد، والتابعون کذالک، وأتباعُ التابعین کذالک، ثلاث مأة سنةٍ کاملةٍ لا یوجدُ فیھا ھذا الشيءُ؛ وإنما أحدَثَہ العبیدیون المُتَسَمُّون زوراً ب ”الفاطمیین“ الذین حکمُوا ”مصر“ (ملخصاً من کتاب المواعظ والاعتبار بذکرالخُطَطِ والآثارالمعروف ب ”الخطط المقریزیة“ : ۲/۴۳۶، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت، الطبعة الأولیٰ: ۱۴۱۸ھ/۱۹۹۷ء)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند