• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 602150

    عنوان:

    ماں، باپ، ایک بیوی، ایک بیٹا اور دو بیٹیوں کے درمیان وراثت کی تقسیم

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ وراثت کس طرح تقسیم ہونگی؟(میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا ہے ۔اب انہوں نے جو مال (ترکہ چھوڑا ہے وہ اُن کے ورثاء میں کس طرح تقسیم ہونگا۔جبکہ مجھے دو بیٹیاں اور ایک نابالغ بیٹا ہے ۔اور کیا اس مال میں سے اہلیہ کے والدین کو بھی حصہ ملے گا،اگر ملے گا تو وہ دونوں اپنا حصہ میرے بچوں کو دے دینا چاہتے ہیں تو کیا ان کا یہ عمل درست ہے ؟اہلیہ نے انتقال سے قبل بڑی بیٹی سے وصیت کی تھی کہ میرے تین زیورات میں سے تینوں بہن بھائی نے ایک ایک زیور لے لینا اور جو نقد رقم ہے اسے مدرسے میں دے دینا۔تو اس وصیت پر کس طرح عمل کیا جائیگا؟جس طرح مال و زیور کو ورثاء میں تقسیم کیا جائیگا تو کیا مرحومہ کے کپڑے بھی اسی طرح تقسیم کیے جائیں گے ؟مرحومہ کا مہر گیارہ ہزار روپئے تھا جو میں نے انہیں ادا کردیا تھا،لیکن پھر ان سے ضرورت کی بناء پر واپس لیا تھا۔اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ میرا مہر مسجد میں دے دینا۔میں نے انکی زندگی میں 4700 روپئے سے ایک مسجد میں نل فٹنگ کا کام کرایا تھا۔دوسری ایک مسجد میں 5000 روپئے دینا تھے جس میں سے 2500 روپئے دے دیا تھا۔انکے انتقال کے بعد 2500 روپئے دے دیئے اور بقیہ 1300 روپئے کی بجائے 1500 روپئے مسجد میں دے دیئے ۔تو کیا میرا یہ عمل مہر کے تعلق سے درست ہے ؟ نوٹمرحومہ کسی نوکری پر نہیں تھی۔انکے پاس جو زیورات تھے ان زیورات ایک زیور ان کے والد نے شادی کے وقت دیا تھا اور باقی زیورات میں نے بطور تحفہ دیئے تھے ۔اور نقد جو رقم ہے وہ اُنہوں نے بچت کی تھی۔

    جواب نمبر: 602150

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:387-79T/N=6/1442

     (۱، ۴): جی ہاں! مرحومہ کے ترکہ میں مرحومہ کے ماں باپ کا بھی شرعی حصہ ہوگا۔

    صورت مسئولہ میں مرحومہ نے اگر اپنے وارثین میں صرف شوہر، ایک بیٹا، دو بیٹیاں اور ماں باپ کو چھوڑا ہے تو مرحومہ کا سارا ترکہ (بہ شمول: زیورات اور کپڑے وغیرہ) بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۴۸/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ۱۲/ حصے مرحومہ کے شوہر یعنی: آپ کو، ۱۰/ حصے مرحومہ کے بیٹے کو، ۵، ۵/ حصے مرحومہ کی دونوں بیٹیوں کو اور ۶، ۶/ حصے مرحومہ کے ماں باپ کو ملیں گے۔

    تخریج کا نقشہ حسب ذیل ہے:

    مسئلہ۱۲، تص ۴۸

    زوج=12

    ابن=10

    بنت=5

    بنت=5

    أب=8

    أم=8

     

    (۲):مرحومہ کے ماں باپ اگر اپنا حصہ اپنے نواسے نواسیوں کو دینا چاہتے ہیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں؛ البتہ دینے کا طریقہ یہ ہوگا کہ پہلے وہ اپنا حصہ لے کر اس پر قبضہ کرلیں، پھر تینوں میں سے جس کو جتنا دینا چاہیں دیدیں اور ہر ایک کو تقسیم کرکے الگ الگ دیں، مشترکہ طور پر نہ دیں۔

    (۳):شریعت نے وارث کے لیے وراثت رکھی ہے، اُس کے لیے وصیت درست ومعتبر نہیں؛ البتہ دیگر وارثین بھی راضی ہوں تو درست ہے ، پس صورت مسئولہ میں مرحومہ کی بڑی بیٹی کے بہ قول مرحومہ کے زیورات صرف بیٹے بیٹیوں کو نہیں ملیں گے؛ بلکہ مرحومہ میں شامل ہوکر حسب شرع جملہ وارثین میں تقسیم ہوں گے؛ البتہ اگر دیگر سب وارثین راضی ہوں تو مرحومہ کے زیورات مرحومہ کے تینوں بچوں میں برابر برابر تقسیم کیے جائیں گے پھر ما بقیہ ترکہ حسب شرع جملہ وارثین میں تقسیم ہوگا۔ اور مرحومہ کی بڑی بیٹی کے بہ قول مرحومہ نے نقد رقم کی جو مسجد کے لیے وصیت کی تھی ، اگر دیگر وارثین کو مرحومہ کی بڑی بیٹی کی بات پر اعتماد وبھروسہ ہے تو وہ تہائی ترکہ میں نافذ ہوگی،اُس سے زیادہ میں نہیں۔

    (۵): اگر مرحومہ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ”میرے مرنے کے بعد میرا مہر مسجد میں دیدینا“؛ بلکہ صرف یہ کہا تھا کہ ”میرا مہر مسجد میں دیدینا“ تو یہ شرعاً وصیت نہیں ہے؛ بلکہ وکالت ہے ؛ لہٰذا مرحومہ کی وفات پر ما بقیہ پیسہ مرحومہ کے ترکہ میں شامل ہوکر حسب شرع جملہ وارثین میں تقسیم ہوگا؛ البتہ اگر آپ (شوہر)اس میں سے صرف اپنا حصہ کسی مسجد میں دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں ۔

    الوصیة تملیک مضاف إلی ما بعد الموت (ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر والدر المنتقی، أول کتاب الوصایا، ۴: ۴۱۷، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)، ومثلہ في کتب الفقہ الأخری۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند