• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 59433

    عنوان: والد کی وفات کے بعد ان کی غیر ادا شدہ زکوة ادا کر سکتے ھیں؟

    سوال: مجھے معلوم کرنا ھے کہ میرے والد کے پاس سونا تھا قریب 20 تولہ، لیکن وہ بے روزگاری کی وجہ سے کافی سالوں تک زکوة ادا نہیں کر سکے ۔ اب ان کا انتقال ہو چکا ہے ۔ کیا اولاد ان کی غیر ادا شدہ زکوة ادا کر سکتی ھے ؟ اگر ہاں تو کس زمانے کے سونے کی قیمت کے حساب سے ؟ جس زمانے میں واجب الادا تھی یا جو ٓاج سونے کی قیمت ہے ؟ ان کا انتقال 16-17 سال پہلے ہوا تھا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا زکوة کی رقم کسی فلاحی ادارے یا کسی اسپتال کو دی جا سکتی ہے جہاں غریبوں کا مہنگا علاج مفت کیا جاتا ہو؟ جیسے پاکستان کا شوکت خانم کینسر اسپتال ؟ یا فلاحی ادارے جو غریبوں کو کم قیمت میں اشیاے  ِضروریہ مثلا" راشن، سبزی دیتے ہیں اور ماہانہ خرچہ اور قرض حسنہ۔

    جواب نمبر: 59433

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 646-650/N=8/1436-U (۱) اگر آپ کے والد مرحوم نے ذمہ میں باقی زکاة کی ادائیگی کی وصیت نہیں کی ہے تو وارثین پر مرحوم کے ترکہ سے ان کے ذمہ واجب شدہ زکاة کی ادائیگی واجب نہیں، البتہ وہ وصیت نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہیں، باہمی رضامندی سے ادا کردیں تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے قبولیت کی امید ہے، اور زکاة ادا کرنے کی صورت میں ادائیگی کے دن سونے کی جو قیمت ہو، اس کے حساب سے زکاة ادا کی جائے گی، البتہ حساب میں ہرسال گذشتہ سالوں کی واجب شدہ زکاة کی مقدار منہا کرنے کے بعد مابقیہ سونے کی زکاة ادا کی جائے گی ، وأما دین اللہ تعالی فإن أوصی بہ وجب تنفیذہ من ثلث الباقي وإلا لا (درمختار مع الشامي: ۱۰: ۴۹۵ مطبوعہ مکتبہ زکریا)، قولہ: وأما دین اللہ تعالی الخ ․․․ وذلک کالزکاة والکفارات ونحوہا، قال الزیلعي: فإنہا تسقط بالموت فلا یلزم الورثة أداوٴہا إلا إذا أوصی بہا أو تبرعوا بہا ہم من عندہم الخ (شامی)، والخلاف في زکاة المال فتعتبر القیمة وقت الأداء في زکاة المال علی قولہما وہو الأظہر وقال أبو حنیفة: یوم الوجوب کما في ا لبرہان (غنیة ذوي الأحکام للشرنبلالي ۱: ۱۸۱، مطبوعہ: میر محمد کتب خانہ، آرام باغ کراچی)، نیز فتاوی عثمانی (۲: ۵۰، ۵۴) اور اس کا حاشیہ (۲: ۵۰) دیکھیں۔ فارغ عن دین لہ مطالب من جہة العباد سواء کان للہ کزکاة وخراج الخ (درمختار مع الشامي ۳: ۱۷۶)، فلو کان لہ نصاب حال علیہ حولان ولم یزکہ فیہما لا زکاة علیہ في الحول الثانی الخ (شامی ۳: ۱۷۶)۔ (۲) اگر فلاحی ادارے اور اسپتال کے ذمہ دار حضرات زکاة کے ضروری مسائل سے واقف ہیں بالخصوص مصارفِ زکاة اور ان سے متعلقہ مسائل اور وہ زکاة کا پیسہ شرعی طریقہ کے مطابق مصارفِ زکاة ہی میں صرف کرتے ہیں تو ایسے فلاحی ادارے یا ا سپتالوں میں زکاة کی رقم دے سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند