معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 56208
جواب نمبر: 56208
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 227-218/N=3/1436-U (۱) آدمی کا اپنی زندگی میں اپنی ساری جائداد کسی ایک اولاد کو دے کر باقی اولاد کو کچھ نہ دینا ناجائز اور گناہ ہے، حدیث میں اس پر جنت سے محروم کردیئے جانے کی وعید آئی ہے: عن أنس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنة یوم القیامة رواہ ابن ماجہ ورواہ البیہقی في شعب الإیمان عن أبي ہریرة (مشکاة شریف ص۲۶۶) لہٰذا آدمی کو ایسا کرکے اپنی عاقبت خراب نہ کرنی چاہیے یہ اور بات ہے کہ اگر کسی نے حالت صحت میں اپنی ساری زمین وجائداد کسی ایک اولاد کو دے کر اسے قابض ودخیل کردیا تو ہبہ نافذ وصحیح وتام ہوجائے گا اور موہوب لہ اولاد مالک ہوجائے گی، کیوں کہ ہبہ کا نافذ ہونا اور اس کا معصیت پر مشتمل نہ ہونا دونوں لازم نہیں ہیں: ولو وہب في صحتہ کل المال للولد جاز وأثم (درمختار مع الشامي: ۸/ ۵۰۲،مطبوعہ مکتبہ زکریا دیبوند) (۲) اگر زندگی میں موت کے تصور کی وجہ سے اپنی زمین وجائداد وغیرہ اولاد کے درمیان تقسیم کرنی ہو تو امام محمد رحمہ اللہ ے قول کے مطابق حسب میراث تقسیم کرے یعنی: ہرلڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر دے۔ اور اگر کسی اولاد کو کسی معقول وجہ کی بنا پر کچھ مزید بھی دیدے تو اس میں کچھ حرج نہیں، البتہ ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کرے جس میں دیگر اولاد کے حق میں اضرار کا قصد یا اضرار کا واضح پہلو پایا جاتا ہو (حاشیہ فتاوی دارالعلوم دیوبند، ۱۷: ۵۰۸، تکملہ فتح الملہم ۲: ۶۸، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت وغیرہ)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند