• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 606723

    عنوان:

    اپنے بیٹے کے حق میں وصیت معتبر نہیں

    سوال:

    سوال : میری بِیوِی کا وراثت میں وصیت کا مسئلہ ہے ، میری بِیوِی کے والدین کا انتقال ہو چکا ہے ، 17 سال پہلے والدہ کا انتقال ہوا تھا، پھر 2012 میں والد کا بھی انتقال ہو گیا، میری بِیوِی کا ایک بھائی ہے جو معذور ہے ، اس کی شادی ہو چکی ہے ، زمین کا کاروبار کرتا ہے اور ایک بہن تھی ان کا بھی 2019 میں انتقال ہو گیا تھا اور ان کے شوہر کا پہلے ہی انتقال ہو گیا تھا ، بہن کے 2 بیٹے ہیں جو اب یتیم ہو گئے ہیں، میری بِیوِی نے ایک بار اپنے بھائی سے جائیداد میں حق کا مطلوبہ کرا تو بھائی ناراض ہو گیا اور کہنے لگا والد وصیت کر چکے ہیں 1 دکان ہے جس کی قیمت 70 لاکھ ہے جو کرائے پہ اٹھی ہے جس کا 30ہزار روپے کرایہ آتا ہے ، 1 مکان ہے جس کی قیمت 50 لاکھ ہے وہ بھی کرائے پہ اٹھا ہے اور کچھ کھیت تھے جو بھائی نے 30لاکھ میں بیچ دیئے اور زمین کا کاروبار کرنے لگے بِیوِی کے بھائی کا کہنا ہے کہ ان سب چیزوں میں سے صرف مکان میں حصہ دے گی باقی دکان اور کھیت والد صاحب نے میرے نام وصیت کری ہے اِس مسئلے کا حَل بتائیں۔

    جواب نمبر: 606723

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 244-287/B=04/1443

     آپ کے خسر نے جو کچھ ترکہ چھوڑا ہے اس میں ان کے سب ہی لڑکے اور لڑکیاں وارث ہوں گی۔ دوکان اور مکان سے جو کچھ کرایہ کی آمدنی حاصل ہوئی ہے ان سب میں بیٹا بیٹی سب حقدار ہوں گے اور جو کھیت بھائی نے بیچ دیا ہے اس کی قیمت میں بھی بھائی بہن دونوں حقدار ہوں گے، باپ نے اپنے بیٹے کے حق میں جو وصیت کی ہے تو وہ غیر معتبر ہے، اپنے وارث کے حق میں وصیت نہیں ہوتی۔ حدیث شریف میں آیا ہے: لا وصیة لوارث یعنی وارث کے حق میں وصیت نہیں، اگر کردی تو وہ نافذ نہ ہوگی۔ بیٹا خود وارث ہے، اپنے وارث کے لیے وصیت نہیں ہوتی ہے، وصیت ہمیشہ غیر وارث کے لیے ہوتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند