• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 62865

    عنوان: غیراسلامی بینک ملازمت (جس کے بارے میں علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جائز نھیں) سے حاصل شدہ رقم یا اس کے علاوہ کسی بھی حرام مال سے مکان تعمیر کروا کر کرائے پر لگادیں، تو اس سے حاصل شدہ منافع کا کیا حکم ہے آیا وہ آمدنی (جو کہ مقررہ ماہانہ اجرت ہے مکان کی ) حلال ہوگی یا حرام؟

    سوال: غیراسلامی بینک ملازمت (جس کے بارے میں علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جائز نھیں) سے حاصل شدہ رقم یا اس کے علاوہ کسی بھی حرام مال سے مکان تعمیر کروا کر کرائے پر لگادیں، تو اس سے حاصل شدہ منافع کا کیا حکم ہے آیا وہ آمدنی (جو کہ مقررہ ماہانہ اجرت ہے مکان کی ) حلال ہوگی یا حرام؟

    جواب نمبر: 62865

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 206-206/N=3/1437-U غیر اسلامی بینک سے حاصل شدہ رقم سے مراد اگر سودی قرض ہے، یعنی: سوال کا منشا یہ ہے کہ کسی بینک سے سودی قرض لیا اور اس سے مکان تعمیر کیا تو جواب یہ ہے کہ سودی قرض لینا حرام وناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے؛ کیوں کہ شریعت اسلام میں جس طرح سود لینا حرام وناجائز ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام وناجائز ہے اور احادیث میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں (مسلم شریف ۲: ۱۷، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ، لیکن سودی قرض میں سود کے نام پر جو زائد رقم دی جاتی ہے، صرف وہ حرام ہوتی ہے، قرضہ میں لی ہوئی رقم حرام نہیں ہوتی؛ اس لیے سودی قرض لے کر اس سے جو مکان تعمیر کیا گیا، وہ حرام نہ ہوگا، پس ایسے مکان کو کرایہ پر دینے کی صورت میں اس کا کرایہ بھی حرام نہ ہوگا، البتہ آدمی کو چاہئے کہ سودی قرض کے گناہ سے سچی پکی توبہ کرے اور جلد از جلد سودی قرض ادا کرنے کی کوشش کرے۔ اور اگر سوال کا منشا کچھ اور ہو تو پوری تفصیل کے ساتھ سوال کیا جائے اور حرام مال کی نوعیت بھی واضح کی جائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند