عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 157753
جواب نمبر: 157753
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:495-720/B=8/1439
یہ حدیث مسلم شریف اور مسند دارمی میں موجود ہے اور صحیح ہے، شارح مسلم قاضی عیاض رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ وہ شخص جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا دی ہے وہ منافق تھا۔ اور ابن مندہ ابونعیم اور ابن ماکولا نے اس شخص کو صحابہ میں شمار کیا ہے، علامہ ابن حجر عسقلانی نے ”الاصابہ“ میں لکھا ہے کہ صحابی شمار کرنے والوں کا قول بے سند ہے۔ پھر حافظ ابن حجر نے ان اقوال کی یہ توجیہ کی ہے کہ جس وقت اس شخص نے کبر کی وجہ سے گستاخانہ جواب دیا تھا وہ اس وقت مسلمان نہیں تھا، بعد میں اسلام لے آیا ہوگا، صحابہ تو عاشق رسول تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرقول پر دل و جان کے ساتھ عمل کرتے تھے، اس طرح کا جواب کسی صحابی سے بہت بعید بات ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے بھی تکملہ فتح الملہم شرح مسلم میں لکھا ہے کہ حافظ ابن حجر نے جو بات لکھی ہے وہ سب سے زیادہ مناسب ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس شخص کا نام الاصابہ میں ”بُحر بن راعی العَیر الاشجعی“ لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں (الاصابہ: ۱/۵۴۴و ۵۴۵)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند