• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 610061

    عنوان:

    طب نبوی سے متعلق سوالات

    سوال:

    سوال : کیا فرماتے ہیں علماءکرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں جیسا کہ درج ذیل احادیث پاک میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ہے ۔ حدیث نمبر ١ : کلونجی میں موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ہے۔ حدیث نمبر ۲ : سناء مکی میں موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ہے۔ حدیث نمبر ٣ : نبئ کریم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں میں جب کوئ بیمار ہو جاتا تو تلبینہ کی ہانڈی اس وقت تک چولھے سے نہیں اترتی جب تک وہ بندہ یا تو صحت یاب ہوجاتا یا اسکو موت واقع ہو جاتی ۔ اس طرح کی اور بھی احادیث بندہ نے بہ حوالہ پڑھی اور سنی ہیں ۔ ایک طرف ملک پاکستان کے مشہور موجد طب (حکیم صابر ملتانی) نے جنکی تحقیق بنام قانون مفرد اعضاء کے آج پوری دنیا میں ایک فطری، یقینی اور بے خطاء علاج ثابت ہوا ہے،جسمیں اصولی طور پر فطرت کے موافق غور اور فکر کرکے ہزاروں سال کی قدیم طب کی خامیاں، دشواریاں اور شکوک وشبہات وغیرہ ( مثلاً علم تشخیص اور ادویہ کے امزجہ وغیرہ) کو حل کرکے اور ساتھ انتہائی آسان کرکے رہتی دنیا کو تحفہ دیاہے ۔ جس کے سامنے آج پوری دنیا کی تمام طبّوں کو (چاہے وہ فرنگی طب ہو یا کوئی اور پیتھی ہو) سرتسلیم خم کرنا پڑ رہا ہے، اور ایک طرف درج بالا ہر حدیث میں ایک ہی دوا کو ہر مرض کے لیےٴ شافی اور کافی بیان کیا ہے، لیکن بمطابق قانون مفرد اعضاء کے درج بالا تمام ادویہ کے امزجہ مخصوص ہیں اور خاص امراض کے لیےٴ ہی مستعمل ہیں ۔ اور تمام اطباء کا تجربہ بھی شاہد ہے کہ اکثر مرتبہ ہر مرض میں درج بالا ادویہ کے استعمال سے مضر اثرات بھی ثابت ہوۓ ہیں ۔ ان تمام تفصیلات کو تحریر کرنے کے بعد حاصل یہ ہے کہ اولاً قانون مفرد اعضاء ثانیاً دنیا کی قدیم طب نے ادویہ کو امزجہ کا لحاظ نہ رکھتے ہوےٴ ( مخالف) استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے، وہ بھی فقط عرصہ دراز کی علمی تحقیق اور تجربہ کی بنیاد پر ۔ تو ایسی حالت میں انسانی صحت کو بحال رکھنے اور امراض کو دور کرنے کے لیےٴ کس بات پر عمل پیرا ہونا بہتر ہوگا، طب نبوی کی بتائ ہوئ تمام امراض کے لیےٴ ایک ہی ادویہ پر یا قانون مفرداعضاء پر، جبکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود چند ادویہ استعمال کرکے امزجہ کے مطابق استعمال کرنے کی تعلیم ارشاد فرمائ ہے ۔ اور اگر قانون مفرد اعضاء یا طب قدیم کے مطابق عمل پیرا ہیں تو درج بالا احادیث (ادویہ) کو کس اعتبار سے سمجھا، مانا اور عمل کیا جاےٴ ۔ نوٹ:طب قدیم کے حوالہ نہ دیتے ہوۓ مذکورہ جدید طب( قانون مفرد اعضاء) کا خلاصتاً ذکر اس لیۓ کیا گیاکہ قانون مفرد اعضاء کی بنیاد ہی امزجہ کے ساتھ مطبق ہے ٬ امزجہ کے خلاف ادویہ استعمال کرنے کی ہرگز گنجائش نہیں اور اس طرح کی طب کو جاہلانہ اور عطایانہ فن قرار دیا ہے۔

    جواب نمبر: 610061

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 980-209/L=8/1443

     حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری ؒ نے طب نبوی كی روایات كے تعلق سے چھ اہم باتیں بیان فرمائی ہیں ان كو بیان كیا جاتا ہے، آپ ان كو بغور پڑھ لیں ان شاء اللہ آپ كے تمام سوالات كے جوابات حل ہوجائیں گے:

    پہلی بات: وہ ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ نے لکھی ہے کہ احادیث کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جن کا پیغام رسانی سے تعلق ہے یعنی جو حکم شرعی کے طور پر وارد ہوئی ہیں، دوسری: وہ جن کا پیغام رسانی سے تعلق نہیں، بلکہ وہ دنیوی امور میں ایک رائے کے طور پر وارد ہوئی ہیں، علاج معالجہ اور طب سے تعلق رکھنے والی روایات دوقسم کی ہیں، اس لئے ابواب الطب کی روایات پڑھتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یہ احکام شرعیہ نہیں ہیں۔ دوسری بات: بیماریاں اور دوائیں دو قسم کی ہیں: مفرد اور مرکب، جو بیماریاں مفرد غذا کے فساد سے پیدا ہوتی ہیں ان کے لئے مفرد دوائیں کافی ہیں، اور جو بیماریاں مرکب غذاوٴں کے فساد سے پیدا ہوتی ہیں ان کے لئے مرکب دوائیں ضروری ہیں، مفرد دواوٴں سے ان کا علاج ممکن نہیں، اور قدیم زمانہ میں لوگ سادہ زندگی گذارتے تھے اور مفرد غذائیں کھاتے تھے ، اس لئے حدیثوں میں جو مفرد علاج آئے ہیں وہ کار گر تھے ، مگر اب جب کہ لوگ مرکب (طرح طرح کی) غذائیں کھانے لگے ہیں تو اب مفرد دوائیں زیادہ کارگر نہیں، اب مرکب دواوٴں کی ضرورت ہوتی ہے ، اس لئے بھی طب نبوی کی روایات معمول بہ نہیں ہیں۔ تیسری بات: پہلے جب حکماء اور ڈاکٹر صاحبان کم تھے تو ہر شخص حکیم ڈاکٹر تھا، ایک ایک بیماری کے کئی کئی علاج لوگ جانتے تھے ، جس کے سامنے بھی بیماری کا تذکرہ کیا جائے : ایک نئی دواء بتاتا تھا، اور اب شہروں کا حال تو یہ ہوگیا ہے کہ لوگ نزلے کی دواء بھی نہیں جانتے ، اس کے لئے بھی حکیم ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتے ہیں، غرض قدیم زمانہ میں لوگ عام طور پر بیماریوں کے علاج خود کرتے تھے ، اور نئی نسل بڑوں سے علاج معالجہ اور دواوٴں کا علم حاصل کرتی تھی، ابواب الطب کی روایات اسی قبیل کی ہیں، نبی ﷺ نے تجربہ سے یا بڑوں سے جو باتیں جانی تھیں، وہ امت کو بتلائیں کہ امت ان سے استفادہ کرے ۔ چوتھی بات: ابواب الطب کی روایات پر عمل کرنے کے لئے دو باتیں جاننی ضروری ہیں: ایک مرض کی پہچان: بعض امراض پیچیدہ ہوتے ہیں، اور بعض امراض متشابہ (ملتے جلتے ) ہوتے ہیں، اس لئے آنکھ بند کرکے کسی نسخہ پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ دوم دواء کے استعمال کا طریقہ جاننا ضروری ہے: یعنی یہ علم ضروری ہے کہ دواء مفرد استعمال کی جائے یا مرکب؟ پھر ہر دواء کی مقدار کیا ہو؟ اور کتنی مقدار میں اور کتنی مرتبہ استعمال کی جائے ؟ ان سب باتوں کا علم ضروری ہے ، مگر یہ سب تفصیلات روایات میں نہیں آئیں، اس لئے بھی طب نبوی کی روایات پر کما حقہ عمل ممکن نہیں، جیسے حدیث میں آیا ہے کہ چار علاج مفید ہیں: (۱) سعوط (ناک میں دواء ڈالنا) (۲) لدود (گوشہٴ فم میں دواء ڈالنا) (۳) پچھنے لگوانا (۴) مسہل لینا، مگر یہ بات مروی نہیں کہ سرکی کس بیماری میں ناک میں دواء ڈالی جائے ؟ اور کونسی دواء ڈالی جائے ؟ اسی طرح کس بیماری میں لدود کیا جائے ؟ اور کونسی دواء سے لدود کیا جائے ؟ جب کہ اس روایت پر عمل کرنے کے لئے یہ باتیں جاننی ضروری ہیں، اس لئے بھی طب نبوی کی روایات پرکما حقہ عمل نہیں کیا جا سکتا۔ پانچویں بات: لوگ پہلے بیماریوں کا علاج خود کیا کرتے تھے ، کیونکہ حکیم ڈاکٹر کی جنس نایاب تھی، اور تیار دوائیں بھی بازار میں دستیاب نہیں تھیں، اور اب صورتِ حال بدل گئی ہے ، گاوٴں گاوٴں ڈاکٹر پھیل گئے ہیں، اور دواء ساز کمپنیاں ہر مرض کی دواء بازار میں لے آئی ہیں، اس لئے جب روٹی ملے یوں تو کھیتی کرے کیوں؟ لوگ اب از خود علاج کرنے کا ذوق نہیں رکھتے ، اس لئے بھی لوگ طب نبوی پر عمل پیرا نہیں، کیونکہ یہ احکام شرعیہ نہیں۔ چھٹی بات: علاج دو ہیں: جسمانی اور روحانی،جو علاج دواوٴں سے کیا جاتا ہے وہ جسمانی ہے اور جو علاج دعا تعویذ سے کیا جاتا ہے وہ روحانی ہے ، کیونکہ بیماریاں دو طرح کی ہیں، زیادہ تر بیماریاں دواوٴں کی ہیں، وہ دواوٴں کا اثر جلدی قبول کرتی ہیں، اگرچہ تعویذ بھی ان میں فائدہ پہنچاتا ہے ، اور کچھ بیماریاں جھاڑ کی ہیں جیسے سانپ بچھو کا زہر، جھاڑ زیادہ سنتا ہے ، دواء اس میں کم اور دیر سے اثر کرتی ہے اس لئے ان ابواب میں دونوں علاجوں کا ذکر ہے ۔ ( تحفة الالمعی ۵/ ۳۶۹)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند