• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 14090

    عنوان:

    ہماری والدہ کا انتقال چار دن پہلے ہوا ہے اورہماری برادری میں جمعرات اور چالیس دن کی رسمیں بہت ہی زور وشور سے بنائی جاتی ہیں جس میں لگ بھگ دو ہزار لوگوں کا کھانا ہوتا ہے چاہے وہ قرض لے کر کریں۔ برادری میں ہم لوگ یہ عہدہ رکھتے ہیں کہ ان رسموں کو بند کرسکتے ہیں لیکن اس کام میں میرے بھائی میرا ساتھ نہیں دے رہے ہیں جب کہ وہ شریعت اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ والدہ وصیت کرگئی تھیں کہ میرا کام اچھے سے کرنا۔ اگر میں یہ کام نہیں کرتا ہوں تو کیا میں اپنی والدہ کا گنہ گار ہو جاؤں گا؟ اور ان حالات میں مجھے اپنی والدہ کی مغفرت اور ان کے ایصال ِ ثواب کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اور شریعت کے حساب سے انتقال کے بعد کیا عمل ہونا چاہیے کہ مرحوم کو ایصال ثواب ہو؟ اور جو بھائی یہ رسمیں کرنے کے لیے مجھ پر زور ڈال رہے ہیں ان کے لیے شریعت کیا کہتی ہے؟

    سوال:

    ہماری والدہ کا انتقال چار دن پہلے ہوا ہے اورہماری برادری میں جمعرات اور چالیس دن کی رسمیں بہت ہی زور وشور سے بنائی جاتی ہیں جس میں لگ بھگ دو ہزار لوگوں کا کھانا ہوتا ہے چاہے وہ قرض لے کر کریں۔ برادری میں ہم لوگ یہ عہدہ رکھتے ہیں کہ ان رسموں کو بند کرسکتے ہیں لیکن اس کام میں میرے بھائی میرا ساتھ نہیں دے رہے ہیں جب کہ وہ شریعت اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ والدہ وصیت کرگئی تھیں کہ میرا کام اچھے سے کرنا۔ اگر میں یہ کام نہیں کرتا ہوں تو کیا میں اپنی والدہ کا گنہ گار ہو جاؤں گا؟ اور ان حالات میں مجھے اپنی والدہ کی مغفرت اور ان کے ایصال ِ ثواب کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اور شریعت کے حساب سے انتقال کے بعد کیا عمل ہونا چاہیے کہ مرحوم کو ایصال ثواب ہو؟ اور جو بھائی یہ رسمیں کرنے کے لیے مجھ پر زور ڈال رہے ہیں ان کے لیے شریعت کیا کہتی ہے؟

    جواب نمبر: 14090

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 974=778/ل

     

    میت کے انتقال کے بعد جمعرات اور چالیس دن کی رسموں کا کوئی ثبوت نہیں، فقہائے کرام غمی کے موقعوں پر دعوت کرنے کو بدعت قبیحہ میں شمار کرتے ہیں اس لیے یہ رسمیں قابل ترک ہیں، آپ حضرات اگر یہ عہدہ رکھتے ہیں کہ ان رسموں کو بند کرادیں تو آپ لوگوں پر ان رسموں کا بند کرانا ضروری ہے ورنہ گنہ گار ہوں گے، آپ کے بھائی اگر آپ کا ساتھ نہ دیں تو آپ انہیں حکمت سے سمجھائیں کہ ان رسموں کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس سے والدہ کو ثواب نہیں پہنچے گا، اگر کھانا ہی کھلانا ہو تو دن اور رسم ورواج کی پابندی کے بغیر فقراء ومساکین وغیرہ کو بلاکر کھانا کھلادیں اور اس کا ثواب والدہ کو پہنچادیں۔ آپ اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لیے جس قدر ہوسکے تلاوت قرآن شریف، صدقہ، خیرات، حج وعمرہ اور دیگر اعمال کرکے اس کا ثواب ان کو پہنچاتے رہیں، آپ کے بھائی کا ان رسموں کے کرنے پر زور ڈالنا صحیح نہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں آپ پر ان کی اطاعت ضروری ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند