• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 17034

    عنوان:

    میری عمر تیس سال اورمیرے بھائی کی چھبیس سال ہے۔ میرے والد نے میری ماں کو چھبیس سال پہلے طلاق دے دیا تھا۔ میرے والد صاحب ایک ٹیچر تھے، وہ 2007میں ریٹائر ہوچکے ہیں۔ انھوں نے دوسری شادی کرلی۔ اس سے ان کا ایک لڑکا ہے۔ ہم دونوں بھائی شادی کے وقت سے اپنی ماں کے ساتھ ہیں۔ والدہ نے دوسری شادی نہیں کی۔ اب میرے والد صاحب حج کرنے جارہے ہیں۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ (الف)اس پراپر ٹی کا کیا حصہ ہوگا جو کہ ہم کو ان سے ملے گی؟ (ب)میرے والدنے ہم کوہماری پیدائش سے لے اب تک صرف پچہتر ہزار دیا ہے ۔ اب جب ہم گہرائی میں جاتے ہیں تو ہماری ماں اور رشتہ داروں نے ہماری تعلیم اور دوسرے روزانہ کے اخراجات پر لاکھوں روپئے خرچ کئے۔ میرے والدنے کبھی بھی ہماری کوئی فکر نہیں کی۔ میں بھی اس بات کا 1992سے گواہ ہوں ۔میرے والد نے اپنی نوکری کے درمیان تقریباً تیس لاکھ روپئے کمائے ہیں۔ اس میں سے ہمارا کیا حصہ ہوگا؟ امید ہے کہ آپ ان تکلیفوں اورپریشانیوں کو سمجھ رہے ہوں گے جو کہ ہم دونوں بھائی اپنی ماں کے طلاق کے وقت سے جھیل رہے ہیں۔

    سوال:

    میری عمر تیس سال اورمیرے بھائی کی چھبیس سال ہے۔ میرے والد نے میری ماں کو چھبیس سال پہلے طلاق دے دیا تھا۔ میرے والد صاحب ایک ٹیچر تھے، وہ 2007میں ریٹائر ہوچکے ہیں۔ انھوں نے دوسری شادی کرلی۔ اس سے ان کا ایک لڑکا ہے۔ ہم دونوں بھائی شادی کے وقت سے اپنی ماں کے ساتھ ہیں۔ والدہ نے دوسری شادی نہیں کی۔ اب میرے والد صاحب حج کرنے جارہے ہیں۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ (الف)اس پراپر ٹی کا کیا حصہ ہوگا جو کہ ہم کو ان سے ملے گی؟ (ب)میرے والدنے ہم کوہماری پیدائش سے لے اب تک صرف پچہتر ہزار دیا ہے ۔ اب جب ہم گہرائی میں جاتے ہیں تو ہماری ماں اور رشتہ داروں نے ہماری تعلیم اور دوسرے روزانہ کے اخراجات پر لاکھوں روپئے خرچ کئے۔ میرے والدنے کبھی بھی ہماری کوئی فکر نہیں کی۔ میں بھی اس بات کا 1992سے گواہ ہوں ۔میرے والد نے اپنی نوکری کے درمیان تقریباً تیس لاکھ روپئے کمائے ہیں۔ اس میں سے ہمارا کیا حصہ ہوگا؟ امید ہے کہ آپ ان تکلیفوں اورپریشانیوں کو سمجھ رہے ہوں گے جو کہ ہم دونوں بھائی اپنی ماں کے طلاق کے وقت سے جھیل رہے ہیں۔

    جواب نمبر: 17034

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل):1771=1386-11/1430

     

    جب تک آپ کے والد صاحب حیات ہیں، اپنی تمام جائداد کمائی وغیرہ کے وہ تنہا مالک ہوں گے، اور ان کو اس میں ہرطرح کے تصرف کا اختیار ہوگا، جب تک ان کی وفات نہ ہوجائے، اس وقت تک آپ کا اس میں کچھ بھی حصہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر وہ صرف آپ کے سوتیلے بھائی پر خرچ کرتے ہیں، آپ لوگوں کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں تو یہ ظلم ہے، جس کی قیامت کے دن ان سے بازپرس ہوگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبہ میں اولاد کے درمیان مساوات (برابری) کا حکم دیا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند