معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 62103
جواب نمبر: 62103
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 13-89/Sn=2/1437-U سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے والد صاحب نے کسی مصلحت کے تحت قانونی دستاویزات میں آپ کا نام لکھوادیا تھا، آپ کے حق میں دکان کو ہبہ کرنا مقصود نہ تھا، اگر ہبہ مقصود بھی رہا ہو پھر بھی چوں کہ صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد صاحب نے ہبہ کے بعد مکمل قبضہ آپ کو نہیں دیا تھا بایں طور کہ وہ دکان سے مکمل طور پر دست بردار ہوجاتے اور پوری دکان بہ طور ملک آپ کے حوالے کردیتے (اور سوال کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا)؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں یہ دکان بھی والد مرحوم کی دیگر مملوکہ چیزوں کی طرح ”ترکہ“ میں شامل ہوگی اور مرحوم کے تمام شرعی ورثاء کے درمیان حصہٴ شرعیہ کے مطابق تقسیم ہوگی، پوری دکان آپ کا اپنے ذاتی استعمال میں لے لینا درست نہ ہوگا؛ البتہ اگر دکان میں آپ نے خوب محنت کی اور ترقی دی تو دیگر ورثاء کو چاہیے کہ ”ترکہ“ میں سے آپ کو بہ طور صلہ کچھ زیادہ حصہ دیدیں؛ لیکن یہ ان پر لازم نہیں ہے۔ وشرائط صحتہا في الموہوب أن یکون مقبوضًا غیر مشاعٍ ممیزًا غیر مشغول (درمختار مع الشامی: ۸/ ۴۸۹، ط:زکریا) وفیہ (ص: ۴۹۳، ۴۹۴) وتتم بالقبض الکامل ولو الموہوب شاغلاً لملک الوہب لا مشغولاً بہ، والأصل أن الموہوب إن مشغولاً بملک الواہب منع تمامہا وإن شاغلاً لا، فلو وہب جرابًا فیہ طعام الواجب أو دارًا فیہا متاعہ․․․ وسلّمہا کذلک لا تصح اھ․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند