• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 153932

    عنوان: تمام بھائیوں اور بہنوں كى باہم اتفاق اور رضامندی سے دوکانوں کی تقسیم

    سوال: مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؛ (۱) عبدالرحمٰن نے اپنی زندگی میں اپنے بچوں سے کہا کہ فلاں کو یہ دوکان ملے گی فلاں بچے کو یہ والی دوکان اور بچیوں کو یہ والی دوکان۔ عبد الرحمٰن کی اولاد میں 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں۔ عبد الرحمٰن کی شہر میں 4 دوکانیں ہیں۔اس کے علاوہ گاؤں میں ایک گھر اور گھر کے ساتھ ملحقہ 4 دوکانیں اور کچھ زرعی زمین بھی ہے ،جو کہ تقریباً 20 کنال زرعی زمین، اور ایک کنال اور 9 مرلے بشمول 4 دوکانوں کے گھر والی جگہ ہے ۔عبدالرحمٰن اور اس کی بیوی فوت ہوچکے ہیں۔ بھائیوں نے والد کی خواہش کے مطابق عدالت کے زریعے شہر والی دوکانیں جس طرح والد نے کہی تھیں اُسی طرح سب کے نام کرا چکے ہیں۔ یہاں ایک بات قابل غور یہ ہے کہ شہر والی چاروں دوکانوں کی قیمت، پیمائش اور ان سے ہونے والی آمدن بھی مختلف ہے ۔(مثال کے طور پر ایک دوکان کا کرایہ ایک لاکھ اسی ہزار،دوسری کا ایک لاکھ ستر ہزار،تیسری کا ایک لاکھ دس ہزار اور چوتھی کا ستتر ہزار (77000)کرایہ سالانہ موصول ہو رہا ہے)۔ باقی جگہ ابھی نہ تقسیم ہوئی ہے نہ نام ہوسکی ہے ۔ کیا یہ تقسیم جو والد صاحب نے اپنی زندگی میں اولاد کو بتائی اور ان کی وفات کے بعد عدالت کے ذریعے ہوئی ۔ کیا یہ شرعی طور پر ٹھیک ہوئی ہے ۔؟ اگر تقسیم ٹھیک نہیں ہوئی تو کیا ابھی دوبارہ کیا صورت اپنائی جائے جس سے معاملہ حل ہوجائے اور کوئی لڑائی نہ ہو۔ عبد الرحمٰن نے تقسیم والی بات اپنی اولاد سے زبانی فرمائی تھی۔قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائی جائے ۔ (۲) ساتھ ایک اور بھی وضاحت فرمائیں کہ بہن بھائیوں میں سے صرف ایک بھائی کی شادی ہوئی ہے ۔ جس کے حصے میں وہ دوکان جس کا کرایہ مبلغ 77000 ہزار سالانہ ہے ۔ اِس بھائی کے ساتھ علیحدگی ہو چکی ہے ۔ اور دوسرے بھائی بہن اس سے شادی کا خرچ (نصف ) طلب کر رہے ہیں۔ علیحدہ رہنا اور الگ گھر کا خرچ یعنی کھانا پکانا یہ باقی بہن بھائیوں کی خواہش اور مرضی تھی۔ اِس خواہش کا تعلق اس بھائی سے نہیں ہے ، جس کی ابھی شادی ہوئی ہے ۔کیا یہ بھائی علیحدہ ہونے پر ان کو اپنی شادی کا (نصف ) خرچ دینے کا پابند ہو گا یہ یا نہیں۔ سائل: اب ج

    جواب نمبر: 153932

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1424-1465/L=5/1439

    اگر شہر کے دوکانوں کی قیمت مختلف ہے تو والد صاحب کے حسب منشا دوکانوں کی تقسیم ورثاء پر لازم نہ تھی ؛البتہ اگر تمام بھائیوں اور بہنوں نے باہم اتفاق اور رضامندی سے ان دوکانوں کی تقسیم حسب منشاء والد کرلی تھی تو ہر ایک اپنے اپنے حصے کے دوکانوں کا مالک ہوگیا۔

    (۲)اگر شادی والد صاحب نے کی تھی یا بھائی بہن اگر بالغ ہوں اور انھوں نے بخوشی مشترکہ رقم کے استعمال کی اجازت دی تھی تو یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوااب شادی کے نصف اخراجات کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔شادی کی اس کے علاوہ اگر کوئی صورت ہوئی ہو تو اس کو لکھ کر دریافت کرلیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند