• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 12144

    عنوان:

    میرے والد صاحب کی دو بیویاں تھیں۔انھوں نے اپنی پہلی بیوی سے 1960میں شادی کی ان سے تین لڑکے ہیں۔ انھوں نے دوسری شادی 1964میں کی اور ان سے دو لڑکے او رایک لڑکی ہے۔وہ اپنی دوسری بیوی کو 1964میں لند ن لائے او راپنی موت 2006تک اس کے ساتھ مسلسل وہیں رہے۔پہلی بیوی پاکستان میں 1993تک رہی اور اس کے بعد سے لندن میں اپنے لڑکے کے ساتھ رہتی ہیں۔میرے والد صاحب نے مالی طور پر اپنی پہلی بیوی کاتعاون کیا، اس کے لڑکوں کا ان کی شادی کے اخراجات اور ان کی تعلیم کا انتظام کیا، ان کے مکان کو خریدنے کے لیے پیسہ دیا اپنی پہلی بیوی کو حج کرایا، اور اس کی اسٹیٹ پینشن کا انتظام کیا وغیرہ۔ میرے والد صاحب ایک پراپرٹی ڈیلر تھے اور انھوں نے اپنا کاروبار 1972میں شروع کیا۔ انھوں نے خود ہی اپنی آفس خریدی اور وہاں سے اپنا کام شروع کیا۔ 1988میں انھوں نے میرے حقیقی بھائی کو اپنے ساتھ کاممیں لگایا اور اس کے بعد 1991میں میں نے بھی کاروبار میں شرکت کی۔ہم اپنے والد صاحب کی موت 2006تک تین پارٹر ہوچکے تھے او رہم میں کے تمام ایک متعین تنخواہ پر کام کررہے تھے۔اپنی زندگی میں انھوں نے تقریباً چودہ پراپرٹی خریدی بطور سرمایہ کاری کے۔ کچھ تو میرے او رمیرے بھائی کے اس کاروبار میں شریک ہونے سے پہلے خریدی گئی تھیں۔ 1994میں میرے والد صاحب نے اپنی آخری وصیت لکھی یہ کہتے ہوئے کہ میری ماں او رمیں ان کیجائداد و املاک کے شیئر کے ٹرسٹی رہیں گے۔چونکہ تمام پراپرٹی کاروبار کا حصہ ہیں اس لیے ان کا حصہ پارٹنر کے درمیان ایک تہائی تھا او ردوسرے تہائی میرے بھائی اور میرے سے تعلق رکھتے تھے۔انھوں نے اپنی وصیت میں اپنی پہلی بیوی یا اس کے بچوں کا ذکر نہیں کیا۔ اپنی بیماری کے دوران انھوں نے اپنی وصیت کا کسی سے بھی تذکرہ نہیں کیا اور گھر کے کسی افراد نے بھی ان سے کوئی سوال نہیں کیا۔مختلف وجوہات کی بناء پر میرے والد صاحب اپنی پہلی بیوی اور اس کے لڑکوں سے خوش نہیں تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہنا پسند کیا 1964سے۔میرے سوتیلے بھائی کاروبار کا حصہ نہیں رہے ہیں اور 35سال سے اس میں کوئی کام نہیں کیا ہے۔ میرے والد صاحب کا اثاثہ وارثوں کے درمیان کیسے تقسیم کیا جائے گا اور ان کی وہ وصیت جو کہ انھوں نے 1994میں کی وہ درست ہے۔ میں اس معاملہ میں آپ کی مخلصانہ رہنمائی کی درخواست کرتا ہوں۔ برائے کرم آپ شریعت کے مطابق اس مسئلہ کو حل کردیں۔

    سوال:

    میرے والد صاحب کی دو بیویاں تھیں۔انھوں نے اپنی پہلی بیوی سے 1960میں شادی کی ان سے تین لڑکے ہیں۔ انھوں نے دوسری شادی 1964میں کی اور ان سے دو لڑکے او رایک لڑکی ہے۔وہ اپنی دوسری بیوی کو 1964میں لند ن لائے او راپنی موت 2006تک اس کے ساتھ مسلسل وہیں رہے۔پہلی بیوی پاکستان میں 1993تک رہی اور اس کے بعد سے لندن میں اپنے لڑکے کے ساتھ رہتی ہیں۔میرے والد صاحب نے مالی طور پر اپنی پہلی بیوی کاتعاون کیا، اس کے لڑکوں کا ان کی شادی کے اخراجات اور ان کی تعلیم کا انتظام کیا، ان کے مکان کو خریدنے کے لیے پیسہ دیا اپنی پہلی بیوی کو حج کرایا، اور اس کی اسٹیٹ پینشن کا انتظام کیا وغیرہ۔ میرے والد صاحب ایک پراپرٹی ڈیلر تھے اور انھوں نے اپنا کاروبار 1972میں شروع کیا۔ انھوں نے خود ہی اپنی آفس خریدی اور وہاں سے اپنا کام شروع کیا۔ 1988میں انھوں نے میرے حقیقی بھائی کو اپنے ساتھ کاممیں لگایا اور اس کے بعد 1991میں میں نے بھی کاروبار میں شرکت کی۔ہم اپنے والد صاحب کی موت 2006تک تین پارٹر ہوچکے تھے او رہم میں کے تمام ایک متعین تنخواہ پر کام کررہے تھے۔اپنی زندگی میں انھوں نے تقریباً چودہ پراپرٹی خریدی بطور سرمایہ کاری کے۔ کچھ تو میرے او رمیرے بھائی کے اس کاروبار میں شریک ہونے سے پہلے خریدی گئی تھیں۔ 1994میں میرے والد صاحب نے اپنی آخری وصیت لکھی یہ کہتے ہوئے کہ میری ماں او رمیں ان کیجائداد و املاک کے شیئر کے ٹرسٹی رہیں گے۔چونکہ تمام پراپرٹی کاروبار کا حصہ ہیں اس لیے ان کا حصہ پارٹنر کے درمیان ایک تہائی تھا او ردوسرے تہائی میرے بھائی اور میرے سے تعلق رکھتے تھے۔انھوں نے اپنی وصیت میں اپنی پہلی بیوی یا اس کے بچوں کا ذکر نہیں کیا۔ اپنی بیماری کے دوران انھوں نے اپنی وصیت کا کسی سے بھی تذکرہ نہیں کیا اور گھر کے کسی افراد نے بھی ان سے کوئی سوال نہیں کیا۔مختلف وجوہات کی بناء پر میرے والد صاحب اپنی پہلی بیوی اور اس کے لڑکوں سے خوش نہیں تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہنا پسند کیا 1964سے۔میرے سوتیلے بھائی کاروبار کا حصہ نہیں رہے ہیں اور 35سال سے اس میں کوئی کام نہیں کیا ہے۔ میرے والد صاحب کا اثاثہ وارثوں کے درمیان کیسے تقسیم کیا جائے گا اور ان کی وہ وصیت جو کہ انھوں نے 1994میں کی وہ درست ہے۔ میں اس معاملہ میں آپ کی مخلصانہ رہنمائی کی درخواست کرتا ہوں۔ برائے کرم آپ شریعت کے مطابق اس مسئلہ کو حل کردیں۔

    جواب نمبر: 12144

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 660=171/ل

     

    وارث کے حق میں شرعا وصیت کا نفاذ نہیں ہوتا اس لیے آپ کے والد نے 1994 میں آپ کے نام جو وصیت کی اس کا اعتبار نہیں ہوگا اور وہ جائداد بھی بطور وراثت کے ان کے ترکہ میں شمار کی جائے گی، اور تمام ترکہ کی تقسیم اس طرح کی جائے گی کہ بعد ادائے حقوق مقدمہ علی المیراث آپ کے والد کا ترکہ 176 حصوں میں منقسم ہوکر 11,11 (گیارہ گیارہ) حصے دونوں بیویوں میں سے ہرایک کو 28,28 (اٹھائیس اٹھائیس) حصے دونوں بیویوں کی مذکر اولاد میں سے ہرایک کو اور 14 (چودہ) حصے لڑکی کو ملیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند