معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 159648
جواب نمبر: 159648
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:688-612/D=7/1439
(۱) صورت مسئولہ میں نانا کے انتقال کے بعد جو ان کے وارثِ شرعی یعنی ۱/ بیوی ۵/ لڑکے، اور چھ لڑکیاں موجود ہیں، وہ نانا کے ترکے میں اپنے اپنے حصہٴ شرعی کے بقدر میراث کے حق دار ہوں گے، لہٰذا نانا کے کل ترکے کو ۱۲۸حصوں میں تقسیم کرکے ۱۶/ حصے بیوی کو، ۱۴،۱۴حصے بیٹوں کو اور ۷،۷حصے بیٹیوں کو ملیں گے۔ اور لڑکوں نے اپنی بہنوں کے نکاح میں جو خرچ کیا ہے اگر خرچ کرنے سے پہلے اپنی بہنوں سے اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا تھا کہ وہ شادی میں ان کے حصہٴ میراث میں سے خرچ کریں گے تو وہ محض تبرع اور احسان ہے، اس سے میراث ساقط نہیں ہوگی، اور لڑکیاں اپنے حصہٴ شرعی کی مستحق ہوں گی۔
نوٹ: بھائیوں نے زیور، کپڑا، سامان اور نقد کی شکل میں جو کچھ اپنی بہنوں کو دیا وہ ان پر واجب نہیں تھا، انھوں نے محض اخلاقی طور پر دیا، لہٰذا اب اگر بہنیں اخلاقی طور پر ان چیزوں کو اپنے ترکہ میں محسوب کرکے اتنا نہ لیں، اس کے علاوہ زائد حصہ کے لینے پر اکتفاء کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
(۲) والد کے انتقال کے بعد والدہ کی موجودگی میں اگر والد مرحوم کے ترکے کو ہی تقسیم کیا جائے، تو قرآن کریم کے عام حکم کے مطابق مرد کو دو اور عورت کو ایک حصہ ملے گا، باقی مفتی صاحب نے جو فرمایا ہے، اس کے بارے میں اگر کچھ معلوم کرنا ہو تو ان سے تحریر لکھواکر اپنے سوال نامے کے ساتھ منسلک کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند