• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 159648

    عنوان: ۱ بیوی ۵ لڑکے اور ۶ لڑکیاں میں وراثت كی تقسیم

    سوال: میرے ناناجان کا انتقال ۴۰ سال قبل ہو چکا ہے جب میری والدہ محترمہ بہت چھوٹی تھیں ان کے ورثہ میں ۱ بیوی ۵ لڑکے اور ۶ لڑکیاں ہیں میرے ناناجان نے اپنی زندگی میں ۱ بیٹی کی شادی کردی تھی اور اس کے بعد میرے مامئوں نے ملکر ۵ بہنوں کی شادیاں کیں اور پھر بہنوں کو وراثت میں حصہ دینے سے یہ کہکر انکار کردیا کے ہم نے تمہاری شادیاں کیں ہیں اور اب اتنے سالوں کے بعد میرے نانا جان کی کچھ کھوئی ہوئی وراثت کا پتہ لگاہے تو اب بھی یہی وجہ بتا کر حق وراثت دینے سے انکار کر رہے ہیں تو کیا ایسی صورت میں لڑکی کا کوء حصہ نہیں ہوتا؟ نیز اگر والد کا انتقال ہو چکا ہو اور والدہ زندہ ہوں تو تقسیم وراثت کے وقت قرآن کے عام حکم کے مطابق مرد کو ۲ اور عورت کو ۱ حصہ ہی ملے گا یا اس کا کوئی اور طریقہ بھی ہے کیونکہ ہمیں مقامی مفتی صاحب نے بتایا ہے کہ ایسی چورت میں مرد اور عورت کو برابر حصہ ملے گا۔ برائے کرم وضاحت کریں اور جواب سے نوازیں ۔

    جواب نمبر: 159648

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:688-612/D=7/1439

    (۱) صورت مسئولہ میں نانا کے انتقال کے بعد جو ان کے وارثِ شرعی یعنی ۱/ بیوی ۵/ لڑکے، اور چھ لڑکیاں موجود ہیں، وہ نانا کے ترکے میں اپنے اپنے حصہٴ شرعی کے بقدر میراث کے حق دار ہوں گے، لہٰذا نانا کے کل ترکے کو ۱۲۸حصوں میں تقسیم کرکے ۱۶/ حصے بیوی کو، ۱۴،۱۴حصے بیٹوں کو اور ۷،۷حصے بیٹیوں کو ملیں گے۔ اور لڑکوں نے اپنی بہنوں کے نکاح میں جو خرچ کیا ہے اگر خرچ کرنے سے پہلے اپنی بہنوں سے اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا تھا کہ وہ شادی میں ان کے حصہٴ میراث میں سے خرچ کریں گے تو وہ محض تبرع اور احسان ہے، اس سے میراث ساقط نہیں ہوگی، اور لڑکیاں اپنے حصہٴ شرعی کی مستحق ہوں گی۔

    نوٹ: بھائیوں نے زیور، کپڑا، سامان اور نقد کی شکل میں جو کچھ اپنی بہنوں کو دیا وہ ان پر واجب نہیں تھا، انھوں نے محض اخلاقی طور پر دیا، لہٰذا اب اگر بہنیں اخلاقی طور پر ان چیزوں کو اپنے ترکہ میں محسوب کرکے اتنا نہ لیں، اس کے علاوہ زائد حصہ کے لینے پر اکتفاء کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

    (۲) والد کے انتقال کے بعد والدہ کی موجودگی میں اگر والد مرحوم کے ترکے کو ہی تقسیم کیا جائے، تو قرآن کریم کے عام حکم کے مطابق مرد کو دو اور عورت کو ایک حصہ ملے گا، باقی مفتی صاحب نے جو فرمایا ہے، اس کے بارے میں اگر کچھ معلوم کرنا ہو تو ان سے تحریر لکھواکر اپنے سوال نامے کے ساتھ منسلک کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند