عنوان: کیا بائی بیک جائز ہے؟اس کی یہ صورت ہے کہ ” زید عمر کو ایک گھر بیچتاہے دس لاکھ نقد میں اس کی گارنٹی دیتے ہوئے کہ تین سال میں اگر یہ فلیٹ بیس لاکھ سے زائدمیں بک جاتاہے تو آپ کی مرضی اس کو بیچنا چاہئے تو بیچ دو اور اگر اس سے کم میں بک رہا ہے تو میں آپ سے اس کو خود بیس لاکھ میں ہی خرید لوں گا
سوال: کیا بائی بیک جائز ہے؟اس کی یہ صورت ہے کہ ” زید عمر کو ایک گھر بیچتاہے دس لاکھ نقد میں اس کی گارنٹی دیتے ہوئے کہ تین سال میں اگر یہ فلیٹ بیس لاکھ سے زائدمیں بک جاتاہے تو آپ کی مرضی اس کو بیچنا چاہئے تو بیچ دو اور اگر اس سے کم میں بک رہا ہے تو میں آپ سے اس کو خود بیس لاکھ میں ہی خرید لوں گا ، اس طرح کی صورت خرید نے والے کو اعتماد ہو کہ میری چیز فروخت ہو ہی جائے گی ، اس لیے عموماًاختیار کی جاتی ہے جس سے ”بائک بیک گارنٹی“ کے ساتھ بیچنا کہتے ہیں، کیایہ شرعاً درست ہے؟
جواب نمبر: 5569830-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1479-1517/N=1/1436-U
صورت مسئولہ میں اگر عمر خریدار کو تین سال کے اندر یا اس کے بعد کسی کے ہاتھ فلیٹ فروخت نہ کرنے کا بھی اختیار ہو، نیز اگر وہ بائع کے علاوہ کسی اورکے ہاتھ بیس لاکھ یا اس سے کم میں فروخت کرنا چاہے تو زید بائع کی طرف سے کوئی دخل اندازی نہ ہو اور نہ ہی کوئی رکاوٹ ڈالی جائے تو یہ دراصل محض تبرع کی شکل ہے اور بیع وشرا میں مبیع کے سلسلہ میں گارنٹی یا وارنٹی دینے کی طرح ہے، پس یہ جائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند