عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک
سوال نمبر: 146092
جواب نمبر: 146092
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 191-260/L=3/1438
تاریخ بغداد کے حوالہ سے جو بات نقل کی گئی ہے اس سے تقلید کا رد نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام صاحب اپنے اصحاب کو مسائل میں کوئی ایک قول ثابت و محقق ہونے سے پہلے جلدی لکھ لینے سے احتیاطاً منع کررہے ہیں، لہٰذا اس عبارت سے تقلید کا رد کرنا درست نہیں کما لایخفی علی متدبر۔
قال الشیخ زاہد الکوثری رحمہ اللہ بعد سرد ہذہ الروایة ”انظر کیف کان ینہی أصحابہ عن تدوین المسائل إذا تعجل أحدہم بکتابتہا قبل تمحصہا کما یجب، فإذا أحطت بما سبق علمت صدق مایقولہ الموفق المکی: (ص۱۱۳/۲) حیث قال: بعد أن ذکر کبار أصحاب أبي حنیفة: وضع أبو حنیفة مذہبہ شوری بینہم، لم یستبدّ فیہ بنفسہ دونہم اجتہاداً منہ فی الدین ومبالغة فی النصیحة للہ ورسولہ والموٴمنین فکان یلقی المسائل مسألة مسألة ویسمع ما عندہم ویقول ما عندہ ویناظرہم شہراً أو أکثر حتی یستقر أحد الأقوال فیہا، ثم یثبتہا أبویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ فی الأصول“ مقدمة نصب الرایة (ج:۱/۲۳)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند