• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 11741

    عنوان:

    مجھے فتوی اور افتا کی تاریخ کے بارے میں معلومات لینی ہے۔ مہربانی فرماکر افتاء کی تاریخ کے بارے میں ان موضوعات پر مجھ کو معلومات فراہم کریں۔ (۱)فقہ اور فتوی کا باہمی تعلق کیا ہے؟ (۲)عہد نبوی میں افتاء۔ (۳)عہد صحابہ میں افتاء۔ (۴)عہد تابعین میں افتاء۔ (۵)بر صغیر میں فقہ اور افتاء کا ارتقاء۔برائے مہربانی حوالاجات کے ساتھ جواب دیں۔

    نوٹ: فقہ اور افتاء کی تاریخ کے بارے میں اہم کتابوں کے نام بھی بتادیں اور بتائیں کہ کہاں سے ملیں گیں؟

    سوال:

    مجھے فتوی اور افتا کی تاریخ کے بارے میں معلومات لینی ہے۔ مہربانی فرماکر افتاء کی تاریخ کے بارے میں ان موضوعات پر مجھ کو معلومات فراہم کریں۔ (۱)فقہ اور فتوی کا باہمی تعلق کیا ہے؟ (۲)عہد نبوی میں افتاء۔ (۳)عہد صحابہ میں افتاء۔ (۴)عہد تابعین میں افتاء۔ (۵)بر صغیر میں فقہ اور افتاء کا ارتقاء۔برائے مہربانی حوالاجات کے ساتھ جواب دیں۔

    نوٹ: فقہ اور افتاء کی تاریخ کے بارے میں اہم کتابوں کے نام بھی بتادیں اور بتائیں کہ کہاں سے ملیں گیں؟

    جواب نمبر: 11741

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 550=395/ل

     

    (۱) فقہ کہتے ہیں احکام شرعیہ عملیہ کے اس علم کو جو ان کے تفصیلی دلائل سے حاصل ہو (قواعد الفقہ: ۴۱۴) اور فتویٰ کہتے ہیں: پیش آمدہ واقعات کے بارے میں دریافت کرنے والے کو دلیل شرعی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بارے میں خبر دینے کو (کتاب الفتاویٰ: ۱/۲۱۹)

    (۲) تاریخ افتاء کے مختلف ادوار ہیں، جو اختصار کے ساتھ ذکر کیے جاتے ہیں:

    عہد نبوی میں افتاء: آپ علیہ الصلاة والسلام کے زمانہ میں خود آپ ہی مفتی تھے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے وارد شدہ وحی کے ذریعہ لوگوں کو حکم شرعی بتلاتے تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں بھی بعض صحابہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی دور دراز کے علاقہ میں مفتی بناکر بھیجتے، وہ وہاں جاکر لوگوں کی صحیح رہنمائی کرتے تھے۔

    (۳) عہد صحابہ میں افتاء: آپ علیہ الصلاة والسلام کے اس دارِ فانی سے وصال فرمانے کے بعد افتاء کی ذمہ داری کو صحابہٴ کرام نے سنبھالا اور نہایت احسن طریقہ سے انجام دیا، صحابہٴ کرام میں جو حضرات فتویٰ دیا کرتے تھے ان کی تعداد ایک سو تیس سے کچھ زائد تھی، جن میں مرد اورعورت دونوں شامل ہیں، البتہ جو حضرات زیادہ فتویٰ دیتے تھے ان کے نام یہ ہیں: حضرت عمر بن الخطاب، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عائشہ، حضرت زید بن ثابت، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین، ان کے علاوہ اور بھی صحابہٴ کرام جو ان سے کم فتویٰ دیا کرتے تھے ان کی تعداد بھی بہت ہے۔

    (۴) عہد تابعین میں افتاء: صحابہٴ کرام کے بعد اس ذمہ داری کو ان کے شاگردوں نے سنبھالا اورمختلف بلادِ اسلامیہ میں اس خدمت کو انجام دیا، چنانچہ تابعین میں سے مدینہ منور میں حضرت سعید بن المسیب، حضرت ابوسلمہ، حضرت عروہ، حضرت عبید اللہ، حضرت قاسم بن محمد، حضرت سلیمان بن یسار اور حضرت خارجہ بن زید رحمہم اللہ، منصب افتاء پر فائز تھے۔ اور مکہ مکرمہ میں حضرت عطا بن ابی رباح، علی بن ابی طلحہ اور عبدالمالک بن جریج یہ کام کیا کرتے تھے۔ کوفہ میں حضرت ابراہیم نخعی ، عامر بن شراحیل وغیرہ اور بصرہ میں حضرت حسن بصری، یمن میں طاوٴس بن کیسان اور شام میں حضرت مکحول رحمہم اللہ، اس کام کو انجام دیتے تھے۔

    (۵) برصغیر میں افتاء کا کام مختلف علماء نے انجام دیا اور دے رہے ہیں، جن میں سرفہرست اکابر علماء دیوبند ہیں، چنانجھ اکابر دیوبند میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپور، مفتی کفایت اللہ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مفتی عزیز الرحمن، مفتی شفیع صاحب اور حضرت مفتی محمود صاحب گنگوہی رحمہم اللہ کے نام قابل ذکر ہیں، نیز ان کے علاوہ بھی دورِ حاضر میں ہندوستان اور پڑوسی ممالک میں فتاویٰ کا کام جاری ہے اور اکابر علمائے کرام کے فتاویٰ مختلف کتب خانوں سے چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں، اسی طرح فتاویٰ میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمة کے فتاویٰ عزیزی، نیز علمائے فرنگی محل کے فتاویٰ بھی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ جلد اول، کتاب الفتاویٰ جلد اول قدرے ترمیم اور اختصار کے ساتھ) فقہ اور افتاء کی تاریخ کے لیے قاموس الفقہ جلد اول، کتاب الفتاویٰ جلد اول، فتاویٰ محمودیہ جلد اول، کا مطالعہ آپ کی رہنمائی کرسکتا ہے، یہ کتابیں دیوبند کے کتب خانوں سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند