• عبادات >> دیگر

    سوال نمبر: 63596

    عنوان: نہ دکھائی دینے والی نجاست بدن پر لگے تو کیسے پاک کرنا چاہیے؟

    سوال: اگر نہ دکھنے والی نجاست بدن پر لگے تو نجاست دور ہونے تک دھونا ضروری ہے چاہے وہ ایک مرتبہ دھونے سے ہی زائل ہوجائے اور تین مرتبہ دھونا بہتر ہے . کیا یہ صحیح ہے ؟ اور اگر کپڑے پہ نہ دکھنے والی نجاست لگے تو تین مرتبہ دھونا ضروری ہے اور ہر مرتبہ نچوڑنا بھی ضروری ہے یا پھر اسطرح دھوئیں کہ ہر بار پانی ٹپکنا بند ہوجائے .کیا یہ صحیح ہے ؟ اور اگر دکھنے والی نجاست کپڑے یا بدن پر لگے تو نجاست دور ہونے تک دھونا ضروری اور تین مرتبہ دھونا بہتر ہے . کیا یہ صحیح ہے ؟

    جواب نمبر: 63596

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 315-315/Sd=5/1437 (۱) اگر نہ دکھنے والی نجاست بدن پر لگ جائے، تو راجح قول کے مطابق تین مرتبہ دھونا ضروری ہے، ایک مرتبہ دھونا کافی نہیں ہے، لہذا یہ بات صحیح نہیں ہے کہ نا دکھنے والی نجاست (نجاست غیر مرئیہ ) اگر بدن پر لگ جائے اور ایک مرتبہ دھونے سے نجاست زائل ہوجائے، تو محض نجاست کے زائل ہونے سے بدن پاک ہوجائے گا، ایسی صورت میں تین مرتبہ دھونا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ بہتر ہے۔ (۲) اگر کپڑے میں نجاست غیر مرئیہ ( نہ دکھنے والی نجاست) لگ جائے، تو تین مرتبہ دھونے کے ساتھ ہر مرتبہ کپڑے کو اپنی طاقت کے بقدر نچوڑنا بھی ضروری ہے، کپڑے میں محض پانی کے ٹپکنے کا بند ہونا کافی نہیں ہے۔ (۳) اگر دکھنے والی نجاست کپڑے یا بدن میں لگ جائے، تو محض ناپاکی زائل کرنے سے بدن اور کپڑا پاک ہوجائے گا خواہ ایک مرتبہ میں یا تین سے زائد مرتبہ میں ناپاکی زائل ہو، نجاست مرئیہ میں اصل ناپاکی کا زائل ہونا ہے ۔ وقال الحصکفي: ویطہر محل غیرہا أي غیر مرئیة بغلبة ظن غاسل ۔۔۔۔طہارة محلہا بلا عدد بہ یفتی۔۔۔۔قال ابن عابدین: قولہ: (بلا عدد بہ یفتی ) کذا في المنیة۔۔۔۔وفي غایة البیان أن التقدیر بالثلاث ظاہر الروایة، وفي السراج اعتبار غلبة الظن مختار العراقیین، والتقدیر بالثلاث مختار البخاریین۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقال نقلاً عن شرح المنیة: أن المذہب اعتبار غلبة الظن وأنہا مقدرة بالثلاث لحصولہا بہ في الغالب وقطعا للوسوسة وأنہ من اقامة السبب الظاہر مقام المسبب الذي في الاطلاع علی حقیقتہ عسر کالسفر مقام المشقة اہ وہو مقتضی کلام الہدایة وغیرہ، واقتصر علیہ في الامداد، وہو ظاہر المتون حیث صرحوا بالثلاث واللّٰہ أعلم۔ وقال الحصکفي: وقدر بتثلیث جفاف۔۔۔۔في غیرہ أي غیر منعصر مما یتشرب النجاسة والا فبقلعہا۔۔قال ابن عابدین: قولہ:( بتثلیث جفاف ) ہذا شرط في غیر البدن ونحوہ أما فیہ، فیقوم مقامہ توالي الغسل ثلاثاً۔۔۔قولہ: ( والا فبقلعہا ) المناسب: فبغسلہا؛ لأن الکلام في غیر المرئیة أي ما لا یتشرب النجاسة مما لا ینعصر، یطہر بالغسل ثلاثاً ولو بدفعة بلا تجفیف کالخزف والآجر۔۔۔۔ومثلہ ما یتشرب فیہ شيء قلیل کالبدن والنعل۔۔ قال ابن عابدین نقلاً عن البدائع:أن المتنجس اما أن لا یتشرب فیہ أجزاء النجاسة أصلا کالأواني المتخذة من الحجر والنحاس والخزف العتیق، أو یتشرب فیہ قلیلاً کالبدن والخف والنعل أو یتشرب کثیراً؛ ففي الأول طہارتہ بزوال عین النجاسة المرئیة أو بالعدد علی ما مر وفي الثاني کذلک؛ لأن الماء یستخرج ذلک القلیل، فیحکم بطہارتہ ۔۔۔۔الخ۔۔( رد المحتار: ۱/۳۳۲،باب الأنجاس، ط: دار الفکر، بیروت ) قال في الہندیة: وازالتہا ان کانت مرئیة بازالة عینہا ۔۔۔۔۔۔ولا یعتبر فیہ العدد، فلو زالت عینہا بمرة، اکتفی بہا ۔۔۔۔الخ۔ ( الفتاوی الہندیة: ۱/۹۶، کتاب الطہارة، الباب السابع، الفصل الأول ) وقال الحصکفي:یطہر محل نجاسة مرئیة ۔۔۔بقلعہا أي: بزوال عینہا وأثرہا ولو بمرة أو بما فوق ثلاث في الأصح۔( رد المحتار: ۱/۳۲۸،باب الأنجاس، ط: دار الفکر، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند