متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 148826
جواب نمبر: 148826
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 411-636/N=6/1437
ہمارے عرف میں جوائنٹ فیملی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کھانا پینا وغیرہ مشترک ہو اور عام طور پر ساس بہووں میں اسی طرح کی رہائش میں بد مزگیاں اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں؛ جب کہ جوائنٹ فیملی کا نظام عورت کی صواب دید اور اس کی مرضی پر ہے، شوہر بیوی کو اس پر مجبور نہیں کرسکتا (بہشتی زیور مدلل، ۴: ۳۳، مسئلہ: ۱، مطبوعہ: کتب خانہ اختری متصل مظاہر علوم سہارن پور) ؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر آپ کو اپنے ماں، باپ اور بھائی کو ایک گھر میں کھانے پینے میں اشتراک کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اور آپ اس کے لیے تیار نہیں ہیں تو وہ شرعاً آپ کو اس پر مجبور نہیں کرسکتے۔ اور اگر وہ کسی بڑے مکان میں آپ کو کوئی ایک کمرہ اور علیحدہ کچن وغیرہ دے کر دوسرے حصہ میں اپنے ماں باپ وغیرہ کو رکھتے ہیں اورآپ اپنا کھانا الگ بناتی ہیں اور آپ کے سسر ساس وغیرہ کا کھانا الگ بنتا ہے تو اس پر آپ کوئی اعتراض نہیں کرسکتیں؛ کیوں کہ رہائشی اعتبار سے شوہر پر آپ کا جو حق تھا، وہ دیدیا گیا ؛ البتہ اگر کسی بڑے مکان میں اس طرح رہنے میں دیور سے پردہ نہ ہوپاتا ہو یا شوہر کے دیگر وہ رشتہ دار بے دھڑک گھر میں آتے ہوں، جن سے شرعاً آپ کا پردہ ہے اور ان سے آپ اپنی عزت پر خطرہ محسوس کرتی ہیں توآپ شوہر سے پردہ کے نظام اور عام رشتہ داروں کے بے دھڑک آنے پر پابندی کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔ اور اگر آپ کے شوہر ایسا نہ کرسکیں تو انھیں آپ کے لیے الگ کسی پردہ والے مکان کا نظم کرنا ضروری ہوگا۔
والحاصل أن المشھور وھو المتبادر من إطلاق المتون أنہ یکفیھا بیت لہ غلق من دار سواء کان فی الدار ضرتھا أو أحماوٴھا، وعلی ما فھمہ فی البحر من عبارة الخانیة وارتضاہ المصنف في شرحہ لا یکفي ذلک إذا کان فی الدار أحد من أحمائھا یوٴذیھا وکذا الضرة بالأولی، وعلی ما نقلہ المصنف عن ملتقط صدر الإسلام یکفي مع الأحماء لا مع الضرة، وعلی ما نقلنا عن ملتقط أبی القاسم وتجنیسہ للأستروشني أن ذلک یختلف باختلاف الناس؛ ففي الشریفة ذات الیسار لا بد من إفرادھا، ومتوسط الحال یکفیھا بیت واحد من دار۔ ومفھومہ أن من کانت من ذوات الإعسار یکفیھا بیت ولو مع أحمائھا وضرتھا کأکثر الأعراب وأھل القری وفقراء المدن الذین یسکنون فی الأحواش والربوع۔ وھذا ھو التفصیل الموافق لما مر من أن المسکن یعتبر بقدر حالھما، ولقولہ تعالی: ”أسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم“۔ وینبغي اعتمادہ في زماننا ھذا فقد مر أن الطعام الکسوة یختلفان باختلاف الزمان والمکان وأھل بلادنا الشامیة لا یسکنون في بیت من دار مشتملة علی أجانب، وھذا في أوساطھم فضلاً عن أشرافھم إلا أن تکون دارا موروثة بین إخوة مثلاً فیسکن کل منھم من جھة منھا مع الاشتراک في مرافقھا، فإذا تضررت زوجة أحدھم من أحمائھا أو ضرتھا وأراد زوجھا إسکانھا في بیت منفرد من دار لجماعة أجانب وفی البیت مطبخ وخلاء یعدون ذلک من أعظم العار علیھم فینبغی الإفتاء بلزوم دار من بابھا الخ (رد المحتار، باب النفقة، ۵: ۳۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند