• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 606794

    عنوان:

    جس کام میں محنت نہ ہو کیا وہ حرام ہے؟

    سوال:

    میرا عرض ہے کہ ایک کمپنی ہے بی فور یو کے نام سے جو کہتے ہیں کہ ہمارا فزیکل بزنس ہے جس میں بسیں چلنا، پراپرٹی خریدنا ، کرکٹ ٹیم کو اسپانسر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ابھی ان پے نیب کا کیس بھی چل رہا ہے کہ یے غیر رجسٹرڈ کمپنی ہے جبکہ کمپنی کا یے بیانیہ تھا کہ ہم ایس ای سی پی ، نیب وغیرہ سب کے ہاں رجسٹرڈ ہیں جبکہ ان کا کام بھی کرپٹو کرنسی کے ذریعے ہوتے ہیں جو کہ میرا خیال ہے ملک میں ابھی تک غیر قانونی ہے ۔ انھوں نے باقاعدہ علماء دین بٹھائے ہوئے ہیں جو کہ اس کو حلال قرار دیتے ہیں۔ جن سے آپ کام شروع کرنے سے پہلے فتوی بھی لے سکتے ہیں۔ میرا عرض یے ہے کہ کچھ علماء جو اس کو حرام بھی قرار دیتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ چاہے آپ انویسٹ کریں لیکن جس کام میں آپ کی محنت نہیں شامل وہ حرام ہے ۔ پیسہ پیسے کو بنا محنت کمائے تو حرام ہے ۔ ان کا کام ایسے ہے کہ آپ سوا لاکھ رکھیں تو آپ کو ہر ماہ 7 سے 20 پرسنٹ کے حساب سے بمطابق آپ کی انویسٹ آپ کو منافعہ آتا رہے گا۔ہم نہیں جانتے کہ جو علماء یے بٹھائے بیٹھے ہیں وہ کس وجہ اس کو حلال قرار دیتے ہیں اور جو حرام قرار دیتے ہیں ان کا کیا سبب ہے ۔ براہ مہربانی ہمیں آپ کے جواب پے پورا اعتماد ہے ۔ صورتحال ساری آپ کے آگے رکھ دی ہے اب ہمیں بتائیں کہ یے حرام ہے یا حلال؟

    جواب نمبر: 606794

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 253-195/D=03/1443

     (۱) جس کام میں محنت شامل نہیں وہ حرام ہے یہ کوئی عام ضابطہ نہیں ہے جو شریعت کے مطابق ہو۔ ”مضاربت“ نفع حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے جس میں ایک شخص کا پیسہ ہوتا ہے اور دوسرے کی محنت اور حاصل ہونے والے نفع میں دونوں شرط کے مطابق حصہ دار ہوتے ہیں اس کی کچھ شرائط بھی ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے تبھی کاروبار جائز ہوگا۔

    (۲) سوا لاکھ پر سات سے بیس پرسنٹ اصل سرمایہ کا طے کرنا جائز نہیں یہ سود ہے۔ شرکت یا مضاربت میں ہونے والے نفع کا پرسنٹ طے کیا جاتا ہے اور نقصان ہونے کی صورت میں بھی ذمہ داری ہوتی ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں لکھی ہے۔

    پس صورت مسئولہ میں کاروبار کی تفصیل اور طریقہ کار کی تحقیق حاصل کرکے تحریر کریں کہ یہ مضاربت کا طریقہ ہے یا شرکت کا، اور نفع نقصان دونوں صورتوں میں کیا طے ہوا ہے۔ نیز جو لوگ اسے جائز کہتے ہیں سوال کی پوری صورت حال ان کے پاس تحریراً پیش کرکے ان سے تحریراً جواب حاصل کریں۔

    اسی طرح جو لوگ ناجائز کہتے ہیں ان سے مکمل صورت حال لکھ کر تحریری جواب حاصل کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند