• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 42654

    عنوان: گواہی مدعی كے ذمہ ہوتی ہے

    سوال: زائد،زاہد،اور ذاکر نے مل کر ممبئی میں آج سے ۸۰ سال پہلے ایک روم خریدا ، ور اپنی بیوی بچوں کورکھنے کے بجائے وہ تینوں اور انکے بھانجے داماد مل کر رہنے لگے،یہ سلسلہ چلتا رہا،ان تینوں کے انتقال کے بعد انکے بیٹے ،عبد اللہ ، عمر، اور عثمان تینوں نے آپس میں بیٹھ کر وہ روم اکیلے عبدللہ کو دے دیا اور اسکی قیمت عبد اللہ سے لے لی،اب عبداللہ اکیلا اس روم کا مالک تھا، لیکن اس نے روم میں جو گاوَں کے لوگ رہ رہے تھے ویسے ہی کرا یہ دار کی حیثیت سے رہنے دیا، اب گاوَں کی کمیٹی اور وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ گاوَں کی جماعت اس روم کا مالک ہے نہ کہ عبداللہ، جب کہ گا وَں والوں کے پاس اسکا کوئی ثبوت نہیں ہے اور یہ بھی پتا نہیں ہے کہ آج سے ۸۰ سال پہلے گاوَں کا صدر کون تھا اور کس بندے نے کتنے پیسے دیئے تھے،جب کہ عبداللہ کے والد زاہد کے نام روم تھا، اور یہ بھی پتا ہے کہ زائد زاہد اور ذاکر نے اپنی جیب خاص سے پیسہ دے کر وہ روم لیا ھوا تھا، ایسی صورت میں ۔ آپ سے یہ سوال کا جواب قران و حدیث کی روشنی میں چاہئے کہ اس روم کا مالک کون ہوگا؟وہ گاوَں والے اور کمیٹی جنکے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے یا عبداللہ؟

    جواب نمبر: 42654

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 78-62/L=2/1434 اگر اس روم کا مالک عبد اللہ ہے اوراس کے پاس اس کے ثبوت بھی ہیں تو گاوٴں والے محض کرایہ دار کی حیثیت سے رہنے کی وجہ سے اس روم کے مالک ہوں گے، البتہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہو جس سے ان کی ملکیت کا پتہ چلے تو ان پر اس کا پیش کرنا ضروری ہے، بصورتِ دیگر عبد اللہ ہی اس روم کا مالک قرار دیا جائے گا۔ لأن البینة علی المدعي والیمین علی من أنکر۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند