• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 608616

    عنوان:

    جمعہ کے دن تقریر کے دوران سنتیں پڑھنا

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں۔ جمعہ کے روز اذان کے بعد حارث مسجد گیا۔ اس وقت مسجد میں تقریر ہو رہی تھی۔ حارث نے سنّتوں کی نیّت باندھنا شروع کی۔ اسی وقت مقرّر نے کہا کہ ابھی سنّتیں نہ پڑھیں بعد میں وقت دیا جائیگا۔ تب تک حارث نیّت کر چکا تھا۔ اس پر مقرّر نے کہا کہ نیّت توڑ کر بیٹھ جائیں۔ حارث کے نیّت نہ توڑنے پر مقرّر نے دوبارہ پر جلال لہجہ میں نیّت توڑنے کو کہا اور پھر تیسری بار کہا کہ" نیّت توڑ دیں نہیں تو میں"۔ اسکے بعد مقرّر نے تقریر پھر سے شروع کر دی اور حارث نے سنّتیں پوری ادا کیں۔ بعد میں اس ہی مقرّر نے امامت کی اور حارث نے اس کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ اس ضمن میں مندرجہ زیل نکات پر وضاحت کی درخواست ہے۔ ۱۔کیا مقرّر کا نماز کی نیّت توڑ دینے کا حکم لگانا شرعی دائرہ کے اندر تھا اور کیا حارث کو سنّتوں کی نیّت توڑ دینا چاہئے تھی؟

    ۲۔امام کا حکم نہ ماننے کے باوجود(گو اس وقت حارث کو معلوم نہیں تھا کہ یہ شخص ہی امام ہے)بھی اس امام کی اقتداء کرتے ہوئے کیا حارث کی نماز صحیح ہوئی۔

    ۳۔اکثر یہ ہو رہا ہے کہ جمعہ کے روز اذان کے امام یا کوئی اور شخص مسجد میں تقریر کرتا ہے اور سنّتوں سے روکتا ہے۔ خطبہ سے چند منٹ پیشتر کہا جاتا ہے کہ اب سنّتیں ادا کر لیں۔ کچھ لوگ جلدی سنّتیں ادا نہیں کر پاتے اور خطبہ شروع کر دیا جاتا ہے اور وہ خطبہ شروع ہونے کے بعد تک سنّتیں پڑھتے رہتے ہیں جس سے دونوں ارکان میں ہی خلل ہوتا ہے۔ اس طرح اذان کی سنّتوں کو منع کرنا اور اس کو معمول بنا لینا کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

    جواب نمبر: 608616

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:276-118/TD-Mulhaqa=6/1443

     (۱) نماز توڑنے کا حکم دینا صحیح نہیں تھا اور حارث کا سنتوں کی نیت نہ توڑنا درست تھا ۔ (۲) نماز صحیح ہوگئی۔ (۳) جمعہ کے دن مساجد میں خطبہ سے پہلے وعظ کا معمول بنانا ایک مفید عمل ہے، عوام کو چاہیے کہ وہ وعظ میں اہتمام سے شریک ہوں اور سنتیں وعظ کے بعد خطبہ سے پہلے اداء کیا کریں، خصوصا جب معلوم ہو کہ تقریر کے بعد سنتوں کے لیے وقت دیا جائے گا تو سنتیں اسی وقت میں اداء کرنی چاہییں تاکہ نماز کا خشوع متاثر نہ ہو، تاہم اگر کوئی شخص وعظ کے دوران سنتیں پڑھ لے تو اس میں مضائقہ نہیں؛ اس لیے کہ تقریر کا حکم خطبہ کے مانند نہیں ہے، پس صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب یہ اطلاع دیدتے ہیں کہ سنتوں کا وقت بعد میں دیا جائے گا یا تقریر کے بعد کہدیتے ہیں کہ اب سنتیں پڑھ لیں، تو یہ اعلان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ البتہ سنتوں کے لیے اتنا وقت دینا چاہیے کہ اطمینان کے ساتھ چار سنتیں اداء کرلی جائیں ۔ ( مستفاد : کفایت المفتی : ۲۸۱/۳، ۲۸۲، دار الاشاعت، کراچی )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند