• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 606712

    عنوان:

    جمعہ کی اذان کے بعد خرید وفروخت کرنا؟

    سوال:

    سوال : سورة الجمعہ آیت :۔ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نُودِیَ لِلصَّلَاةِ مِن یَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَیٰ ذِکْرِ اللَّہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذَٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔ اس آیت کے تحت تفسیر جلالین میں لکھاہوہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید وفروخت کرنا حرام ہے ۔ اب مسئلہ یہ دریافت کرنا تھا کہ میں پچھلے جمعہ ،جمعہ کی تیاری کر رہا تھا کہ اذن کے بعد اچانک میرے استاد محترم کا فون آیا،کہ وہ میری اپنی مسجد آرہے ہیں میں نے ان کو مسجد میں بٹھایا ،چونکہ گھر میں کھانا بن چکا تھا لیکن میں ان کے لیے کچھ میٹھا کا انتظام کرنے کے لئے دوکان سے کچھ خرید و فروخت کیے اب ظاہر ہے کہ میٹھا کھانا کوئی ضروری چیز تو نہیں۔ تو آپ حضرت والاسے دریافت کرنا یہ تھا کہ استاذ کے استقبال کے لئے میرا یہ کیا ہوا عمل حرام ہوگا یا نہیں اگر حرام ہے تو اس کی تلافی کیا ہوگی۔ برائے کرم کرم مدلل جواب دیکھ کر ممنون فرمائیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔آمین۔

    جواب نمبر: 606712

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:235-61/SD=3/1443

     جمعہ کی ذان اول کے بعد کوئی بھی ایسا کام جو سعی الی الجمعہ میں مخل ہو، مکروہ تحریمی ہے ، پس آپ نے اذان اول کے بعد خرید و فروخت کرکے ایک ناجائز امر کا ارتکاب کیا، جس سے توبہ استغفار ضروری ہے ، استاد کے لیے میٹھے کا انتظام نماز کے بعد کرنا چاہیے تھا ۔

    قال الحصکفی: (ووجب سعی إلیہا وترک البیع) ولو مع السعی، فی المسجد أعظم وزرا (بالأذان الأول) فی الأصح وإن لم یکن فی زمن الرسول بل فی زمن عثمان. وأفاد فی البحر صحة إطلاق الحرمة علی المکروہ تحریما۔ قال ابن عابدین: (قولہ وترک البیع) أراد بہ کل عمل ینافی السعی وخصہ اتباعا للآیة نہر۔ ( الدر المختار مع رد المحتار: ۱۶۱/۲، دار الفکر، بیروت ، البحر الرائق : ۱۶۹/۲، دار الکتاب الاسلامی، امداد الفتاوی: ۱۲۲/۳، جدید)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند