• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 603962

    عنوان:

    ایك ہی مسجد میں جمعہ کی دو جماعتیں

    سوال:

    سوال : امید کرتا ہوں کہ آپ بخیر ہوں گے ۔ لندن کی اکثر مساجد میں ظہر کاوقت شروع ھونے کے بعد جمعہ کی پہلی اذان دی جاتی ہے ۔ اس کے بعد امام مقامی زبان میں خطبہ دیتے ہیں، پھر لوگوں کو سنت پڑھنے کا وقت دیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد جمعہ کی دوسری اذان دی جاتی ہے ۔ خطبہ مسنون بزبان عربی اور جمعہ کی وأجب نماز ادا کی جاتی ہے ۔جگہ کی تنگی کے پیش نظر دو جماعتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ دوسری جماعت میں اذان خطبہ اور پھر جماعت سے نماز کی ادائیگی ہوتی ہے ۔کاروباری حضرات اپنے کچھ اسٹاف کو پہلی اور باقی کو دوسری جماعت میں بھیج کر کاروبار کو کھلا رکھتے ہیں۔ ان کے صارفین میں مسلمان بھی شامل ہوتے ہیں۔۔ دکانیں اور دیگر کاروبار کب بند ہونے چاہئیں؟ پہلی یا دوسری اذان کے بعد؟۔ قرآن و سنت کا مطلوب صرف خطبہ سننا اور واجب نماز کی ادائیگی ہے یا اسکے ساتھ کاروبار کا بند کرنا بھی ہے ؟ جو مسلمان دوکاندار دکانیں بند نہیں کرتے ہیں، کیا وہ گنہگار ہوں گے ؟ العیاذ باللہ۔۔ جو مسلمان صارفین پہلی جماعت ادا کرکے دکانوں سے خریداری کریں اور وہ صارفین جو دوسری جماعت میں شریک ہونے سے پہلے خریداری کریں کیا گناہ گار ہوں گے ؟ براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔جَزَاکُمُ اللَّہُ خَیْرًا

    جواب نمبر: 603962

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:780-135T/L=9/1442

     مذکورہ بالا صورت میں جمعہ کے دن ایک ہی مسجد میں دو جماعتیں کرنا شرعا مکروہ ہے، اگر جگہ تنگ ہو جیسا کے سوال میں اس کی وضاحت کی گئی ہے تو کسی دوسری مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنی چاہئے اور اگر دوسری مسجد نہ ہو تو پھر میدان یا ہال وغیرہ میں دوسری جماعت کا انتظام کرنا چاہئے اور سابقہ معمول کو ترک کردینا چاہئے ۔واضح رہے کہ دکانیں ودیگر کاروبار کو بند کرنے کے سلسلے میں اذان اول کا اعتبار ہے ؛لہٰذا اذان اول سے پہلے دکان وغیرہ کو بند کرکے جمعہ کی نماز کی تیاری میں لگنا چاہیے، اذانِ اول سے جماعت تک خرید وفروخت مکروہِ تحریمی ہے؛ اس لیے جو مسلمان اس دوران خرید وفروخت سے نہیں رکتے ہیں ان اس سے باز رہنا چاہیے، اور جو مسلمان پہلی جماعت کے بعد خریداری کرتے ہیں ان کے حق میں کراہت کا حکم نہیں ہے ۔

    ویکرہ تکرار الجماعة بأذان وإقامة فی مسجد محلة لا فی مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن (قولہ ویکرہ) أی تحریما لقول الکافی لا یجوز والمجمع لا یباح وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعة کما فی رسالة السندی (قولہ بأذان وإقامة إلخ) عبارتہ فی الخزائن: أجمع مما ہنا ونصہا: یکرہ تکرار الجماعة فی مسجد محلة والمراد بمسجد المحلة ما لہ إمام وجماعة معلومون کما فی الدرر وغیرہا․ قال فی المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثانی احترازا عما إذا صلی فی مسجد المحلة جماعة بغیر أذان حیث یباح إجماعا․ اہ․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/ 553)یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذا نُودِیَ لِلصَّلاةِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلی ذِکْرِ اللَّہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (القرأن:سورة الجمعة)وحاصلہ أن السعی نفسہ فرض والواجب کونہ فی وقت الأذان الأول․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 161)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند