• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 591

    عنوان: جنھیں ایمان کے بارے میں معلوم نہیں انھیں مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے سزا کیوں دی جائے گی؟

    سوال:

    میرا ایک غیر مسلم دوست ہے جو اسلام قبول ہی کرنے والا ہے، لیکن کچھ سوالات اسے پریشان کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کیسے کریں گے جنھیں اسلام کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھیں اسلام کا علم ہی نہیں ہے، تو انھیں مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے سزا کیوں دی جائے گی؟

     نیز ان لوگوں کا کیا ہوگا جو غلامی، قحبہ گری وغیرہ جیسے ماحول میں پیدا ہوتے ہیں؟ان کو سزا دینا کیسے جائز ہوگا؟

     سوال کا آخری جز ء یہ ہے کہ ایسے اچھے خاندانوں کے سلسلے میں کیا حکم ہوگا جو غیر مسلم ہیں اور جو اچھے کام کرتے ہیں؟

    المختصر اس کا کہنا ہے کہ کیوں غیر مسلمین کو اسلام کا پیغام پانے کے لیے مسلمانوں پر انحصار کرنا چاہیے؟ یہ تو درست نہیں ہے کہ انھیں کسی مسلمان سے مدد لینا ضروی ہو، ان لوگوں کا کیا ہوگا جو مسلمان دوست نہیں رکھتے؟ مجھے معلوم ہے کہ ہر آدمی کو اپنی زندگی میں اپنی ایمان و یقین کے متعلق علم ہونا چاہیے، لیکن انھیں ان کے سوالوں کا بہت زیادہ اطمینان بخش جواب چاہیے۔ قرآن کے حوالے سے جواب عنایت فرمائیں۔ واضح رہے کہ وہ لوگ بھی یہی سوال کرتے ہیں جو ملحد یا خذابیزار ماحول میں پیدا ہوتے ہیں۔

    والسلام

    جواب نمبر: 591

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 148/د=149/د)

     

    تمام کائنات کا پیدا کرنے والا اللہ جل مجدہ ہے اسی نے انسان کو بھی پیدا کیا اور اس کو عقل کی دولت سے نوازا مفید اور مضر چیزوں میں تمیز کرنے کا ملکہ عطا کیا جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے (الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَد پ۳۰/اعلی) یعنی وہ ذات جس نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کو ٹھیک بنایا جس نے جانداروں کے لیے ان کے مناسب چیزوں کو تجویز کیا پھر ان جانداروں کو ان چیزوں کی طرف راہ بتلائی یعنی ان کی طبیعتوں میں ان چیزوں کا تقاضہ پیدا کیا. نیز اللہ تعالی نے انسان پر اپنی نعمتوں کاذکر کرتے ہوئے فرمایا، اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہُ عَیْنَیْنِ وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ وَھَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِ (پ۳۰/البلد) کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے پھر اس کو دونوں رستے خیر و شر کے بتلادیئے۔ کائنات میں نظر کرنے کے لیے آنکھیں، نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کے لیے عقل اللہ کی وہ نعمت ہے جس کی وجہ سے انسان اچھائیوں کے اختیار کرنے اور برائیوں سے اجتناب کرنے کا مکلف ہے اس کے بعد پھر انبیاء کرام علیہم السلام کو ہر دور میں مبعوث فرماتے رہے ہیں تاکہ انسان ان کے بتلائے ہوئے راستہ پر چلے اور انبیاء کرام کو ان کی بات کی صداقت کے لیے بطور دلیل معجزات عطا کیے گئے تاکہ کسی کو مجال انکار نہ رہے۔ اگر کسی نے نبی کا دور نہیں پایا تو بھی نبی کے لائے ہوئے پیغام کو جاننا سمجھنا اس کی ذمہ داری ہے اگر اسلام اور نبی کے بارے میں اس کو کوئی خبر ہی نہیں ملی یا ایسی جگہ میں ہے جہاں اسلام اور نبی کا کوئی تعارف ہی نہیں ہے تو بھی اس کو اپنی عقل خداداد سے اللہ تعالی کے واحد ہونے اور اس کے خالق ہونے کا یقین کرنا ضروری ہے کیوں کہ کائنات کا وجود اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس کا کو ئی خالق ہے اور پورے نظام کائنات کا ایک تسلسل میں جڑا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ذات تن تنہا خالق کائنات ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی وحدانیت پریقین کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا نا یہ ہر انسان پر عقلی طور پر واجب ہے اگر انسان نے اس عقل خداداد کے فیصلہ کے خلاف اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا یا اس کو خالق نہ مانا تو بہت بڑا ظلم کیا اپنے خالق ومالک کے ساتھ، رب کائنات کے ساتھ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ﴿اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾ یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے اور ﴿اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾ بلا شبہ اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں فر مائیں گے اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہیں گے معاف فرمادیں گے۔ جب انسان نے اللہ تعالی کے خالق ہونے کا انکار کیا یا اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا تو وہ عقاب خداوندی کا مورِد بنا۔ اور اگر کسی شخص نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا مگر اسلام کے بارے میں نہ جان سکا اور احکام خداوندی اس کو معلوم نہ ہوسکے تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردیں، مگر یہ اس جگہ کی بات ہے جہاں اسلام اور اس کے پیغام کا کسی نے نام تک نہیں سنا لیکن دنیا میں ایسا خطہ شاید ہی ہو جہاں اسلام کانام بھی لوگ نہ جانتے ہوں اگر صرف اسلام کا نام سنا ہے تفصیلات سے ناواقف ہے تو مذہب اور عقیدہ کے لحاظ سے اس کو جاننا اور سمجھنا اس شخص کی ذمہ داری ہے جس کوتاہی کی وجہ سے وہ عند اللہ جواب دہ ہوگا۔

    ماحول اور سوسائٹی انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے اور اچھا ماحول اختیار کرنا انسان کی ذمہ داری ہے اگر گندہ اور فحش ماحو ل میں پیدا ہونے والا اور رہنے والا شخص اپنے ضمیر اور عقل کی آواز پر کان لگاتا اور اپنے ماحول کوبہتر بنانے یا بہتر ماحول کے اختیار کرنے کی فکر کرتا تو رفتہ رفتہ وہ ایسے ماحول میں پہنچ جاتا جہاں حق کا تلاش کرنا اور مقصد تخلیق کو سمجھنا اس کے لیے آسان ہو جاتا، اس شخص نے اپنے اس فریضہ کی ادائیگی میں جو کوتاہی کی اس کا جواب دہ ہو گا، اسی کو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ﴿اُلٰئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلاَلَةَ بِالْھُدٰی﴾ انہوں نے ہدایت کے بدلہ میں گمراہی کو اختیار کرلیا یعنی یہ شخص اپنی عقل، ضمیر کی آواز اور فطرت سلیمہ کی رہنمائی سے ہدایت کا راستہ حاصل کرسکتا تھا مگر اس نے اپنی عقل کا رخ بدل دیا ضمیر کی آواز کو دبادیا اور فطرت سلیمہ کو بیکار کردیا۔ جو اچھے خاندان کے لوگ ہیں اگر انہوں نے اسلام کی دعوت کو قبول نہیں کیا تو آخرت میں اپنے ایمان کے سلسلہ میں ان کو جواب دہ ہونا ہوگا البتہ جو اچھے کام مثلا خدمت خلق، غربا ومساکین کی امداد، والدین اور اعزاء کے ساتھ حسن سلوک وغیرہ اس نے کیا تو ان نیک اور اچھے کاموں کا بدلہ اللہ تعالی دنیا میں دیدیتے ہیں، آخرت میں اچھے اعمال کا اچھا بدلہ ملنے کے لیے ایمان شرط ہے۔ اللہ تعالی کا پیغام بشکل اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں آیا اس پیغام پر ایمان لانے والے اور اس کو ماننے والے مسلمان کہلا تے ہیں یہ کسی برادری یا قوم کا نام نہیں ہے یا کسی خاص ملک کے رہنے والے یا کسی خاص زبان کے بولنے والے کو مسلمان نہیں کہاجاتا ہے دنیا کا ہرشخص خواہ کسی ملک کا رہنے والا یا زبان کا بولنے والا ہو اسلام کا نمائندہ بن سکتاہے اسلام کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک نازل فرمایا اور اس کو سمجھانے کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا لہٰذا اسلام کو سمجھنے کے لیے قرآن کا مطالعہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سیر ت طیبہ کا مطالعہ ضروری ہے ﴿ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا﴾ میں دنیاکے تمام انسانوں کے ليے رسول بناکر بھیجا گیا ہوں ﴿ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ﴾ دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی معتبر ہے ﴿وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ﴾ جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کرے گا، تو وہ اللہ کے نزدیک معتبرو مقبول نہیں ہوگا۔

     امید ہے کہ ان باتوں سے آپ کی اور آپ کے دوست کی تسلی ہوجائے گی نیک کام میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے اور جس نیکی کا سراغ لگ گیا ہے دوسروں تک اس کو پہنچا نے کی فکر کرنی چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند