عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 146450
جواب نمبر: 146450
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 193-169/D=3/1438
(۱) احناف کے یہاں راجح قول کے مطالبق زیارة القبور للنساء مکروہ ہے حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کی زیارت کرنے سے منع کردیا تھا پھر بعد میں اجازت دی تو بعض علماء نے فرمایا کہ اجازت صرف مردوں کے لیے ہے، عورتوں کے لیے زیارت بدستور ممنوع ہے او ربعض علماء نے فرمایا کہ عورتوں کے لیے بھی اجازت ہے بشرطیکہ کوئی فتنہ فساد لازم نہ آئے لیکن چونکہ عورتوں کے اندر تحمل کم ہوتا ہے، بسا اوقات قبر کو دیکھ کر رونا، چلانا، بال نوچنا وغیرہ شروع کردیتی ہیں اور اگر بزرگوں کی قبریں ہوں تو طواف وسجدہ کرنے لگتی ہیں اور ان سے مرادیں مانگتی ہیں نیز آج کل عورتوں کا گھر سے نکلنا موجب فتنہ و فساد ہے اس لیے عورتوں کا مطلقاً قبرستان جانا منع ہے۔ قال العیني وحاصل الکلام من ہذا کلہ أن زیارة القبور مکروہة للنساء بل حرام فی ہذا الزمن ولا سیما نساء مصر لأن خروجہن علی وجہ فیہ الفساد والفتنة (عمدة القاری: ۸/۷۰، ط: رشیدیہ) قال الشامی: والأصح أن الرخصة ثابتة لہن ․․․ وحزم في شرح المنیة بالکراہة لما مر في اتباعہن الجنازة وقال الخیرالرملی إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ما جرت بہ عادتہن فلاتجوز وعلیہ حمل حدیث لعن اللہ زائرات القبور وان کان للاعتبار والترحم من غیر بکاء والتبرک بزیارة قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز ویکرہ إذا کن شواب للکراہة حضور الجماعة فی المساجد (رد المختار: ۳/۱۵۱، ط: زکریا)
(۲) کسی امر مشروع کو مفاسد کے سبب روکنے میں یہ تفصیل ہوگی کہ وہ امر مشروع شریعت کی جانب سے مطلوب ہے یا مستحسن و محمود ہے، اس کا تعلق دین کی بنیادی چیزوں سے ہے یا نہیں؟ نیز مفاسد کس درجے کے ہیں وغیرہ اور یہ سب کام محقق عالم و مفتی کے دیکھنے سمجھنے کا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند