• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 606665

    عنوان:

    وراثت کی تقسیم حصوں کے اعتبار سے ہے یا قیمت کے؟

    سوال:

    سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کا انتقال ۲۰/ سال قبل ہوا، انتقال کے وقت وارثین میں دو بیٹے ( عمر، بکر) اور چار بیٹیاں( زاہدہ،شاہدہ،خالدہ،راشدہ) باحیات تھیں ۔متروکہ جائیداد میں دو مکان اور دو پلاٹ تھے ،مرحوم کے انتقال کے بعد دونوں مکانوں میں دو نوں بیٹوں کے اہل خانہ رہائش پذیر ہو گئے ،پھر کچھ سال بعد دونوں بیٹوں نے ایک پلاٹ فروخت کرکے اس سے ملنے والے پیسے آپ میں تقسیم کرلیا اور بہنوں کو اس میں سے کچھ حصہ نہیں دیا ۔بقیہ ایک پلاٹ کا دونوں بھائیوں کے بیٹوں نے ایک بلڈر سے 50-50 پر چھ منزلہ عمارت تعمیر کرنے کا معاملہ طے کرلیا ہے ۔والد مرحوم کی متروکہ جائیداد میں بیٹیاں اور وفات پانے والیوں کی اولاد اپنے یا اپنی والدہ کے موروثی حق کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔ ضروری طلب امر یہ ہیکہ (الف)زید مرحوم کی جائیدادمیں وارثین میں سے کس کو کتنا حصہ ملے گا؟ (ب)یہ جائیداد کس طرح تقسیم کی جائے گی (حصص سے یا قیمت سے )؟ اگر قیمت سے تو مرحوم کے وفات کے وقت کی قیمت یا موجودہ قیمت کے حساب سے ؟ (ج)بیٹوں کے ذریعہ فروخت کی گئی پراپرٹی میں بھی بیٹیوں کا حق ہوگا یا نہیں ؟ اگر ہوگا تو کتنا ؟ (د)جس پلاٹ پر عمارت تعمیر ہورہی ہے اس میں بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم کس طرح ہوگی ،قیمت سے یا حصص سے ،اگرقیمت سے تو کس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا ؟حصص سے تو کس کا کتنا حصہ ہوگا؟ بینوا و توجروا

    جواب نمبر: 606665

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 258-141T/SN=03/1443

     (الف) اگر زید کی بیوی، والدین اور دادا-دادی کا انتقال زید سے پہلے ہی ہوگیا تھا تو صورت مسئولہ میں زید کا پورا متروکہ مال (زمین، مکان، سامانِ مکان، روپیہ پیسہ وغیرہ) بعد ادائے حقوقِ متقدمہ علی الارث کل آٹھ حصوں میں تقسیم ہوکر دو-دو حصے دونوں بیٹوں کو اور ایک ایک حصہ چاروں بیٹیوں کو ملے گا یعنی 25%-25% ہر ایک بیٹے کو اور 12.5%-12.5% ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

    (ب) اصل استحقاق تو حصص کے اعتبار سے ہے؛ باقی اگر ورثاء باہمی رضامندی سے موجودہ قیمت کے اعتبار سے تقسیم کرلیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

    (ج) اس میں بھی بیٹیوں کا حصہ ہے یعنی اس میں بھی بیٹیاں مذکورہ بالا تناسب سے حصے دار ہیں۔

    (د) ”ب“ کے تحت جو حکم تحریر کیا گیا ہے، اس کے مطابق یہاں بھی عمل درآمد کیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند