• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 51438

    عنوان: ورایت میں یتیم كا حق

    سوال: ہم پانچ بھائی تھے ایک دو سال پہلے فوت ہوچکا ہے جسکی ایک بیٹی بھی ہے ۔ ہمارے والد صاحب نے مجھ سے بڑے دو بھائیوں کو کاروبار میں سے مکمل حصہ دے دیا ہے اور وہ دونوں علیحدہ ہیں۔ میں والد صاحب کے ساتھ تھا مگر میرا چھوٹے بھائی کے ساتھ جھگڑا ہوا اور والد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے چھوٹے کے ساتھ رہنا ہے ۔ اب میں کاروبار میں سے حصہ مانگتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جو بھی ہے میرا ہے میں نہیں دیتا۔ کیا شرعی طور پر ان کو یہ حق حاصل ہے ؟ کہ وہ ایسا کرسکیں۔ دوسرا یہ کہ والد صاحب اور بڑے بھائی یہ کہتے ہیں کہ کیونکہ والد صاحب نے جب بھائی فوت ہوا تب تک کسی کو کچھ نہیں دیا تھا اس لیے اس بھائی کی بیٹی کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے ؟ جب کہ تب بھی والد صاحب بڑے دونوں بھائیوں کو کاروبار میں سے انکا مکمل حصہ دے چکے تھے ۔ کیا اس یتیم بچی کا ہمارے والد صاحب کی وراثت میں کوئی حصہ ہے اگر ہے تو کس حصاب سے ہے ؟ برائے مہربانی احادیث یا قرآنی آیت کے حوالے کے ساتھ رہنمائی فرمائیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

    جواب نمبر: 51438

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 590-501/H=4/1435-U والد صاحب کی یہ بات تو درست ہے کہ زندگی میں اپنا کاروبار اور اپنا مال تقسیم کرنا ان پر واجب نہیں تاہم اگر تقسیم کرنا چاہیں تو پھر تمام اولاد یعنی بس بیٹے بیٹیوں کے درمیان برابری اور مساوات سے تقسیم کرنا چاہئے اور یتیم پوتی کو بھی اس کی ضرورت کے بقدر کچھ دینا چاہیے، زندگی میں اولاد کے مابین تقسیم کرنے پر وراثت کا حکم نہیں ہوتا نہ یہ تقسیم میراث ہے بلکہ یہ ہبہ ہے اور ہبہ میں اولاد کے درمیان برابر کرنا مستحب ہے، کتب حدیث شروحِ حدیث اور فقہ وفتاوی سے اسی طرح ثابت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند