• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 601955

    عنوان: بیٹیوں کے درمیاں تقسیم 

    سوال:

    زید کے ۶بیٹیاں ہیں کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے اس کے پاس ایک رہایشی ۵۰گز پر بنا ہوا تین منزلہ مکان ہے اور ایک پلاٹ ہے ، ۴کی شادی ہو چکی ہے تو اس کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں ۔ نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 601955

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:363-277/N=5/1442

     آدمی اپنی زندگی میں اپنی تمام املاک: مکان، پلاٹ، کاروبار وغیرہ کا تن تنہا مالک ہوتا ہے، اس کی زندگی میں اُس کی کسی چیز میں کسی اولاد کا مالکانہ کوئی حق وحصہ نہیں ہوتا؛ اسی لیے وراثت کا حکم وفات پر ہوتا ہے، زندگی میں نہیں؛ لہٰذا ابھی جب زید باحیات ہے تواُس کی کسی ملکیت : زمین وجائداد وغیرہ کے بٹوارے کی ضرورت نہیں، نیز جب ابھی ۲/ بیٹیوں کی شادی باقی ہے تو زید کو پہلے اُن کی شادی کی فکر کرنی چاہیے۔ اور اگر وہ اپنی تمام ذمہ داریوں سے فارغ ہوکر اپنی املاک اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہے یا جب بہ قضائے الہی اُس کی وفات ہوجائے تو اُس وقت زید کے جو شرعی وارثین ہوں، یعنی: بیوی، بیٹی،ماں، باپ، بھائی، بھتیجہ، چچا یا چچا زاد بھائی وغیر، اُن کی تفصیل لکھ کر شرعی تقسیم معلوم کرلی جائے۔

    قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:”کل واحد أحق بمالہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین“۔ (السنن الکبری للبیہقي، ۷: ۷۹۰)۔

    اعلم أن أسباب الملک ثلاثة:ناقل کبیع وہبة وخلافة کإرث وأصالة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصید، ۱۰:۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند