• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 40502

    عنوان: وراثت

    سوال: میرے سسر سلیم رضا صاحب کا برضائے الہی انتقال ہوگیاہے، میرے سسر کے نکاح میں دو بیویاں تھیں، میرے سسر نے اپنی زندگی میں ہی ایک جائداد ایک بیوی اور دوسری جائداد دوسری بیوی کے نام کردی تھی تاکہ بعد میں ان دونوں بیویوں میں جائداد کے معاملے میں کوئی اختلاف نہ ہو، اس وقت میرے سسر نے ترکے میں ایک بیوہ یعنی میری ساس ،دو بیٹے یعنی میرے شوہر اور دیور اور ایک بیٹی اور ساتھ میں لگ بھگ ایک کروڑ پچاس لاکھ کی جائداد چھوڑی ہے جو ساس کے نام ہے جو میرے سسر نے اوپر دیئے مسئلہ کی وجہ سے ان کے نام کری تھی، میری ساس ایک گھریلو خاتون ہیں اور جائداد سسر کے پیسوں سے خرے گئے ہیں اور ساس کا ماننا اور کہنا ہے کہ یہ ان کی ملکیت ہے ، اس میں کسی بچہ کا وراثتی حق نہیں ہے۔ براہ کرم، شریعت کی رو سے اس جائداد کی وراثت اور تقسیم کا شرعی طریقہ بتائیں۔

    جواب نمبر: 40502

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1632-368/B=9/1433 صورتِ مذکورہ میں سلیم رضا مرحوم نے جو دو جائدادیں دونوں بیویوں کے نام کرکے ان کے قبضہ میں دیدیا ہے، وہ دونوں بیویاں اپنی اپنی جائدادوں کی مالک ہوگئیں وہ دونوں جائدادیں سلیم رضا مرحوم کے ترکہ میں شمار نہ ہوں گی۔ ان دونوں کے علاوہ اور جس قدر جائداد، گھریلو، سامان، زیور، نقد اپنی ملکیت میں چھوڑے ہیں۔ وہ سب از روئے شرع ۴۰/ سہام پر تقسیم ہوں گے جن میں سے موجودہ بیوہ کو آٹھواں حصہ یعنی ۵/ سہام اور دونوں لڑکوں کو ۱۴-۱۴ سہام اور لڑکی کو ۷/ سہام ملیں گے۔ نوٹ: یہ ملحوظ رہے کہ صرف نام کرنے سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی، لہٰذا اگر دونوں بیویوں کو مکان پر مکمل قبضہ دخل دے کر خود بے داخل ہوگئے تھے تو دونوں مکان دونوں بیویوں کے ہوگئے ورنہ نہیں۔ (د)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند