• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 58350

    عنوان: میرے والد کے تین بچے ہیں، دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے

    سوال: میرے والد کے تین بچے ہیں، دو بیٹے اور ایک بیٹی ، میرے والد ۱۵۰ گز کے ایریا میں ایک دو منزلہ مکان کے مالک ہیں، (یہ اسکوائر فٹ میں نہیں ہے)پندرہ سال سے میں گراؤنڈ فلور میں ایک اسکول چلا رہی ہوں، میں شادی شدہ ہوں اور میرے دو بچے ہیں، یہی اسکول میری فیملی کے لیے ذریعہ آمدنی ہے، اب میرے بڑے بھائی وہ جگہ واپس چاہتے ہیں، اور والد صاحب معاشی طورپر بڑے بھائی پر ہی انحصار کرتے ہیں ، والد صاحب مجھے میرا حصہ دینے کے لیے تیارہیں۔ براہ کرم، بتائیں کہ ۱۵۰ گز میں میرا کتنا حصہ بنے گا؟ مجھے کتنا گز ملے گا؟

    جواب نمبر: 58350

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 446-441/N=6/1436-U

    اگر آپ کے والد صاحب اپنی زندگی ہی میں اپنی ملکیت اپنے ہونے والے وارثین کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے لیے جتنا رکھنا چاہیں رکھ لیں، اس کے بعد مابقیہ کو ۴۰/ حصوں میں تقسیم کرکے ۵/ حصے آپ کی والدہ کو، ۱۴، ۱۴/ حصے ہربیٹے کو اور ۷/ حصے آپ کو دیدیں، اور اگر آپ کی والدہ باحیات نہ ہوں تو اپنے لیے حسب منشا نکالنے کے بعد مابقیہ کو ۵/ حصوں میں تقسیم کرکے ۲، ۲/ حصے ہربیٹے کو اور ایک حصہ آپ کو دیدیں، کیوں کہ والد صاحب کے انتقال پر ان کی وراثت آپ لوگوں کے درمیان اسی طرح تقسیم ہوگی۔ اور اگر آپ کے والد صاحب کسی مناسب ومعقول وجہ کی بنا پر کسی ا ولاد کو دوسروں سے کچھ زیادہ دینا چاہیں تو شرعاً اس کی بھی اجازت ہوگی؛ کیوں کہ وہ ابھی اپنی تمام املاک کے مالک ہیں، البتہ کسی معقول وجہ کے بغیر محض بعض اولاد کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ایسا کرنا درست نہیں (تکملہ فتح الملہم ۲: ۶۸، ۶۴، ۶۵ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت وحاشیہ فتاوی دارالعلوم دیوبند ۱۷: ۵۰۶)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند