معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 58350
جواب نمبر: 58350
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 446-441/N=6/1436-U
اگر آپ کے والد صاحب اپنی زندگی ہی میں اپنی ملکیت اپنے ہونے والے وارثین کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے لیے جتنا رکھنا چاہیں رکھ لیں، اس کے بعد مابقیہ کو ۴۰/ حصوں میں تقسیم کرکے ۵/ حصے آپ کی والدہ کو، ۱۴، ۱۴/ حصے ہربیٹے کو اور ۷/ حصے آپ کو دیدیں، اور اگر آپ کی والدہ باحیات نہ ہوں تو اپنے لیے حسب منشا نکالنے کے بعد مابقیہ کو ۵/ حصوں میں تقسیم کرکے ۲، ۲/ حصے ہربیٹے کو اور ایک حصہ آپ کو دیدیں، کیوں کہ والد صاحب کے انتقال پر ان کی وراثت آپ لوگوں کے درمیان اسی طرح تقسیم ہوگی۔ اور اگر آپ کے والد صاحب کسی مناسب ومعقول وجہ کی بنا پر کسی ا ولاد کو دوسروں سے کچھ زیادہ دینا چاہیں تو شرعاً اس کی بھی اجازت ہوگی؛ کیوں کہ وہ ابھی اپنی تمام املاک کے مالک ہیں، البتہ کسی معقول وجہ کے بغیر محض بعض اولاد کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ایسا کرنا درست نہیں (تکملہ فتح الملہم ۲: ۶۸، ۶۴، ۶۵ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت وحاشیہ فتاوی دارالعلوم دیوبند ۱۷: ۵۰۶)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند