• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 605347

    عنوان:

    اپنی ساری جائیداد كسی ایك بیٹی كے نام كرنا كیسا ہے؟

    سوال:

    زید کی صرف دو بیٹیاں ہیں اکبری اور اصغری۔ زید اپنی زندگی ہی میں اپنی ساری جائیداد اصغری کے نام کر دیتا ہے اور اکبری کو جائیداد میں سے کوئی حصہ نہیں دیتا۔ کیا اصغری کے لیے جائیداد جائز ہوگی؟ اور زید کا ایسا کرنا درست ہے ؟

    جواب نمبر: 605347

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1173-869/B=01/1443

     اپنی زندگی میں باپ جو کچھ اولاد کو دیتا ہے وہ شرعاً ہبہ ہوتا ہے اور اولاد کے درمیان جب کوئی چیز تقسیم کی جائے تو سب کو برابر دینا چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے سَوُّوْا بَیْنَ أوْلاَدِکُمْ فِی الْعَطِیَّةِ یعنی عطیہ دینے میں اپنی اولاد کے درمیان برابری اختیار کرو۔ بلاوجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہیں دینا چاہئے۔ صورت مذکورہ میں اگر زید نے اپنی ساری جائیداد دو بیٹیوں میں سے صرف ایک بیٹی اصغری کے نام بلاوجہ شرعی کیا ہے تو یہ اس نے دوسری اکبری کی حق تلفی کی۔ اصغری کو چاہئے کہ انصاف کے ساتھ ساری جائیداد میں سے آدھی جائیداد اپنے پاس رکھے اور آدھی اپنی بہن اکبری کو دیدے۔ ویسے باپ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا مالک و مختار ہوتا ہے جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے نہ دے۔ اگر اس نے اصغری کے نام ساری جائیداد کردی ہے تو اصغری اس کی مالک ہوگئی، مگر بلاوجہ ایسا کرنے سے باپ گنہگار ہوگا۔ اصغری کے لئے بھی کُل جائیداد اپنے پاس رکھنا مروت کے خلاف ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند