• معاشرت >> ماکولات ومشروبات

    سوال نمبر: 2418

    عنوان:

    اگر کسی چیز کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس میں کیا ملا ہوا ہے اور میں اس کو کھالوں تو کیا اللہ تعالی میری دعا قبول فرمائیں گے؟ کیا مشکوک و مشتبہ اشیاء کے کھانے پینے سے گناہ ہوتا ہے؟

    سوال:

    اگر کسی چیز کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس میں کیا ملا ہوا ہے اور میں اس کو کھالوں تو کیا اللہ تعالی میری دعا قبول فرمائیں گے؟ کیا مشکوک و مشتبہ اشیاء کے کھانے پینے سے گناہ ہوتا ہے؟

    جواب نمبر: 2418

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 468/ ل= 468/ل

     

    (۱) اگر کسی چیز کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس میں کیا ملا ہوا ہے تو اکر ان اشیاء کا استعمال بلا تامل ہورہا ہو تو جب تک ناپاک چیز کے ملائے جانے کا شرعی ثبوت سے پتہ نہ چل جائے ان اشیاء کا استعمال جائز ہوگا محض شک کی وجہ سے ان کے ترک کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا، بخاری شریف میں ہے: وقال الحسن في ثیابٍ ینسجھا المجوس لم یر بھا باساً الخ علامہ عینی اس کے ضمن میں لکھتے ہیں وعلم من ھذہ الآثار الثلاثة جواز لبس الثیباب التي ینسجھا الکفار وقال ابن بطال: اختلفوا في الصلاة في ثیاب الکفار فأجاز الشافعي والکوفیون لباسھا وإن لم تغسل حتی تتبین فیھا النجاسة (عمدة القاري: ج4 ص69) اور جب ایسی چیزوں کااستعمال جائز ہوا تو پھر اس کے کھانے سے دعاء کے قبول ہونے نہ ہونے پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔

    (۲) مشکوک و مشتبہ سے اکر آپ کی مراد یہ ہے کہ یہ اشیاء حلال ہیں، یا حرام؟ تو تاوقتیکہ اس کی تحقیق نہ ہوجائے اس کے استعمال سے بچنے ہی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے فمن اتقی الشبھات استبرأ لدینہ وعرضہ (بخاري شریف: ج۱ ص۱۳) اور اگر یہ مراد ہو کہ خرید کرنے والے نے حلال مال سے اس کو خریدا ہے یا حرام مال سے؟ تو جب تک کہ اس کا پتہ نہ چل جائے کہ اس کی آمدنی حرام ہے اس وقت تک اس کا کھانا جائز ہوگا کیونکہ اس زمانہ میں شبہ کااعتبار نہیں ہے لعدم اعتبار الشبھة في زماننا (شامي: ج۵ ص۲۸۷، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند