• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 66337

    عنوان: غیرمسلم بھائیوں کا بھی بالخصوص لیڈروں کا پیسہ مدرسے میں کس حد تک جائز ہے؟

    سوال: قصبہ بہسومہ (میرٹھ) میں 1935سے ایک مدرسہ ہے، مدرسے کا نام قاسم العلوم ہے ، اس مدرسے میں تقریباً بیس بچے باہر کے زیر تعلیم ہیں، لیکن مدرسے میں مطبخ کا کوئی نظام نہیں ہے، تمام طلبہ بستی کے لوگوں کے یہاں کھانا تناول فرماتے ہیں؛ (۱) کیا اس مدرسے میں زکاة فطرہ صدقات دینا جائز ہے؟ (۲) اس مدرسے میں ہر سال اجلاس عام منعقد کیا جاتاہے ، چونکہ اس سال الیکشن کا دور رہا ہے تو جلسے کی بنیادپر ہمارے غیر مسلم لیڈر ووٹ کی خاطر اس مدرسے میں بڑھ چڑھ چندہ اور دان کرتے ہیں ، تو کیا یہ پیسہ ہمارے غیرمسلم بھائیوں کا بھی بالخصوص لیڈروں کا اس مدرسے میں کس حد تک جائز ہے؟ آپ سے یہ التماس ہے کہ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان مسائل کے جوابات دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 66337

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 864-864/M=9/1437 (۱) جب مذکورہ مدرسے میں مطبخ کا نظام نہیں ہے تو اندازہ یہ ہے کہ طلبہ کو وظیفہ وغیرہ دینے کا بھی نظام نہیں ہوگا، اگر یہ اندازہ صحیح ہے تو ایسے مدرسہ میں زکوة، فطرہ او رصدقات واجبہ دینا درست نہیں، ہاں جو طلبہ اس مدرسے میں باہر کے رہائش پذیر ہیں وہ اگر مستحق زکوة ہوں تو ان کو زکوة فطرہ وغیرہ دے سکتے ہیں۔ (۲) سیاسی لیڈر خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم اگرپہلے سے اس کا کسی مدرسہ میں چندہ یا عطیہ دینے کا معمول نہیں ہے او روہ خاص الیکشن کے موقع پر مدرسہ میں چندہ دیتا ہے تو اس کا مقصد صرف ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے لہذا الیکشن کے موقع پر سیاسی لیڈران سے کسی قسم کی امداد نہیں لینی چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند