• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 17270

    عنوان:

    ہم سنی مسلم ہیں حنفی مذہب کی اقتدا کرتے ہیں ، میڈگاسکر میں رہتے ہیں، او رمزید وضاحت کے لیے یہ بتانا چاہیں گے کہ یہ صوبہ توماسینامیں واقع ہے جو کہ جی ایم ٹی کے مطابق جنوبی ہیمسفئرمیں واقع ہے، اور میڈگاسکر کے مشرق میں تقریباًاس کا طول البلد 18.09 اورعرض البلد 49.25ہے۔میڈگاسکر کے مقابل میں مکہ 346.2ڈگری یا 384.6گریڈ پر ہے۔اور مسلمانوں کی طرح ہم لوگ بھی نماز کے لیے قبلہ کا رخ کیا کرتے تھے۔ اور ہمارا قبلہ متعدد قطب نماکے مطابق تیس سے سینتیس ڈگری منحرف ہے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہمارے پاس کوئی پیشہ ور بحری قطب نماز اور GPS(Global positining system) موجود نہیں ہے۔ بلاشبہ، ہمارے مرحوم مولوی سلیمان احمد ماکروڈ صاحب اس صورت حال سے واقف تھے اورجب مسجد کی دوبارہ تجدید ہوئی توانھوں نے دو دن تک تامل اور غور وفکر کیا اور اس کے بعد انھوں نے بلڈر کو اسی طرح کام کرنے کی اجازت دے دی۔ ...

    سوال:

    ہم سنی مسلم ہیں حنفی مذہب کی اقتدا کرتے ہیں ، میڈگاسکر میں رہتے ہیں، او رمزید وضاحت کے لیے یہ بتانا چاہیں گے کہ یہ صوبہ توماسینامیں واقع ہے جو کہ جی ایم ٹی کے مطابق جنوبی ہیمسفئرمیں واقع ہے، اور میڈگاسکر کے مشرق میں تقریباًاس کا طول البلد 18.09 اورعرض البلد 49.25ہے۔میڈگاسکر کے مقابل میں مکہ 346.2ڈگری یا 384.6گریڈ پر ہے۔اور مسلمانوں کی طرح ہم لوگ بھی نماز کے لیے قبلہ کا رخ کیا کرتے تھے۔ اور ہمارا قبلہ متعدد قطب نماکے مطابق تیس سے سینتیس ڈگری منحرف ہے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہمارے پاس کوئی پیشہ ور بحری قطب نماز اور GPS(Global positining system) موجود نہیں ہے۔ بلاشبہ، ہمارے مرحوم مولوی سلیمان احمد ماکروڈ صاحب اس صورت حال سے واقف تھے اورجب مسجد کی دوبارہ تجدید ہوئی توانھوں نے دو دن تک تامل اور غور وفکر کیا اور اس کے بعد انھوں نے بلڈر کو اسی طرح کام کرنے کی اجازت دے دی۔ اوراب تک ہم ان کی دعا و برکت سے نماز پڑھتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ قبلہ کے بارے میں ڈگری کا تسامح محترم ہے۔ واضح رہے کہ پہلے اس مسجد کی جگہ پر ایک نائٹ کلب تھا ، اور اللہ کے فضل و کرم سے 2004میں اس کو ایک اسلامی داخلی الحوفیذل مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ نیز یہ مسجد مرحوم مولوی سلیمان ماکروڈ کے ذریعہ سے تعمیر کی گئی تھی، الحمد للہ یہاں (میڈگاسکر)سے دو سو سے زیادہ حافظ قرآن نکلے ۔مولانا دیوا، انکلیشور سے آئے تھے اورجامعہ حسینیہ راندیر انڈیا کے نائب مہتمم تھے۔ انھوں نے پینتالیس سال سے زیادہ تمتاوے میں گزارا اور ان کا انتقال 6مئی 2000کو ہوا۔ ان کی وفات کے بعد کچھ لوگ موجودہ قبلہ (30-37%) کا رخ کرنا چاہتے ہیں اور کچھ لوگ مصلیٰ کے قطب نما کے مطابق اس کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔اس با ت کو لے کر نمازیوں کے درمیان خود بخوداختلاف پیدا ہوگیا ہے، اور اب اس بارے میں دو مکتبہ فکر ہیں جو کہ درج ذیل ہیں: (۱)موجودہ قبلہ کو مانتے ہیں جو کہ مرحوم مولوی اسماعیل کے زمانہ میں تھا۔ (۲)قبلہ کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور کچھ لوگوں نے اس مسجد کو [مسجد قبلتین ] تک کہہ دیا۔ شیطان کے کام سے فتنہ شروع ہوگیا۔ بہر حال، اللہ بڑا ہے اوروہی ہماری صحیح راستہ کی جانب رہنمائی کرے گا۔ مسجد کمیٹی کی اکثریت اور زیادہ تر مصلی مانتے ہیں کہ مرحوم مولوی اسماعیل صحیح تھے اورہم کو اسی سمت میں نماز پڑھنا جاری رکھنا ہوگا اور ہم کیسے اپنے استاد کے عمل کی ان کی وفات کے بعد حکم عدولی کرسکتے ہیں؟ اوران کی زندگی میں کبھی یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا تھا۔ کمیٹی اور الحفیذل مسجد کے نمازیوں کی طرف سے کچھ سوالات معلوم کئے جاتے ہیں: (۱)کیا موجودہ قبلہ کا معمول کے مطابق رخ کیا جائے؟ (۲)کیا جو نماز موجودہ قبلہ کی جانب رخ کرکے ادا کی گئی وہ درست ہے؟ (۳)کیا یہ جائز ہے کہ صرف امام قبلہ کی سو فیصد سمت کرے اور مصلی لوگ موجودہ قبلہ کی سمت کریں؟ (۴)کیا اس کو نئے قبلہ میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے؟قبلہ کے بارے میں انحراف کی حد کیا ہے؟ والسلام

    جواب نمبر: 17270

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 2094=1645-1/1431

     

    مرحوم مولوی سلیمان احمد ماکروڈ جو تمام صورت حال سے واقف تھے انھوں نے سوچ سمجھ کرجو مسجد کی تعمیر فرمائی اورجس طرف قبلہ کا رخ متعین فرمایا وہ صحیح ہے، انھوں نے اپنے اکابر علماء سے مشورہ لے کر مسجد کا قبلہ رخ متعین کیا ہوگا۔ جدید آلات یعنی موجودہ کمپاس مسجد نبوی کے رخ کو بھی غلط بتاتا ہے جب کہ مسجد نبوی کی بنیاد رکھتے وقت قبلہ کی تعیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے فرمائی تھی۔ اگر بالفرض معترضین کے قول کے مطابق موجود قبلہ چندڈگری قبلہ سے منحرف ہے، تو بھی کچھ حرج نہیں۔ کیونکہ 45ڈگری تک منحرف ہونے میں نماز ہوجاتی ہے، البتہ 45 ڈگری سے زیادہ منحرف ہو تو نماز نہ ہوگی، اس وقت قبلہ کا بدلنا ضروری ہوگا۔ موجودہ قبلہ والی مسجد میں جس قدر نماز ادا کی گئی ہے سب کی نماز صحیح اور درست ہوگئی۔ ان کے رہنے والے ممالک کے لیے عین کعبہ کی طرف رخ کرنا ناممکن ہے اس لیے شریعت نے دُور رہنے والوں کے لیے صرف سمتِ قبلہ کو کافی مانا ہے۔ امام ومقتدی ہردو کو ایک ہی طرف رخ کرکے نماز پڑھنی چاہیے۔ از روئے شرع قبلہ کو بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں موجودہ قبلہ جس کے مطابق اب تک نماز پڑھتے چلے آرہے ہیں اسی کے مطابق نماز پڑھتے رہیں اور براہِ مہربانی کسی طرح کا خلفشار نہ پھیلائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند