• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 151996

    عنوان: بیوہ عورت شادی کرے تو بچے کس کے پاس رہیں؟

    سوال: سوال یہ ہے کہ میری خالہ کی لڑکی ہے جو بیوہ ہے۔ شوہر کا انتقال ہوئے ۴/ سال ہوگئے۔ اور فوت شدہ شوہر میری دوسری چچی/خالہ کا بیٹا ہے، اُس سے تین بچے ہیں: ایک لڑکا اور دو لڑکیاں۔ اب یہ بیوہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔ ایسی صورت میں بچے کس کے پاس ہونے چاہئے؟ برائے مہربانی ذرا جلدی جواب دیں۔

    جواب نمبر: 151996

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 937-1385/sd=1/1439

    صورت مسئولہ میں اگر بیوہ عورت ایسے مرد سے نکاح کرے گی جو بچوں کا محرم رشتہ دار نہیں ہے ، تو ایسی صورت میں بیوہ کو بچہ کی پرورش کا حق نہیں ہے، ایسی صورت میں سات برس سے پہلے لڑکے اور نو برس سے پہلے لڑکیوں کی پرورش کا حق نانی اور پرنانی کو ملے گا، اُن کے بعد دادی اور پردادی کو، پھر خالہ اور پھوپی کو اور اگر بچوں کی رشتہ داروں میں سے کوئی عورت پرورش کے لیے نہ ملے ، تو دادا وغیرہ ( عصبات کی ترتیب کے مطابق ) پرورش کریں گے ۔ یہ استحقاق بچہ کی تربیت اور مفاد کے خاطر ہے اور اگر بیوہ نے ایسے مرد سے نکاح کیا ہے جو بچوں کا محرم رشتہ دار ہے ، جیسے بچوں کا چچا، تو ایسی صورت میں سات برس تک لڑکے کی پرورش کا حق اور نو برس تک لڑکیوں کی پرورش کا حق بیوہ ماں کو ملے گا اور دوسرے شوہر کو منع کرنے کا کوئی حق نہیں ہوگا ۔اور بچوں کا نفقہ بہر صورت دادا، پردادا ، چچا وغیرہ پر عصبات کی ترتیب پر واجب ہوگا ، اگر مرحوم باپ نے ترکہ میں کچھ مال چھوڑا ہے ، تو بچوں کے حصے میں سے اُن پر خرچ کیا جائے گا۔ (طلاق عدل و انصاف پر مبنی اسلام کا ایک مستحکم قانون، دوسرا حصہ ، ص:۵۱، پرورش کا حق ، ط: مکتبہ دار العلوم /دیوبند )

    قَالَ - رَحِمَہُ اللَّہُ - (وَمَنْ نَکَحَتْ غَیْرَ مَحْرَمِہِ سَقَطَ حَقُّہَا) أَیْ مَنْ تَزَوَّجَ مِمَّنْ لَہُ حَقُّ الْحَضَانَةِ بِغَیْرِ مَحْرَمٍ لِلصَّغِیرِ سَقَطَ حَقُّہَا لِمَا رَوَیْنَا، وَلِأَنَّ زَوْجَ الْأُمِّ یُعْطِیہِ نَزْرًا، وَیَنْظُرُ إلَیْہِ شَزْرًا فَلَا نَظَرَ فِی الدَّفْعِ إلَیْہِ بِخِلَافِ مَا إذَا کَانَ الزَّوْجُ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ لِلصَّغِیرِ کَالْجَدَّةِ إذَا کَانَ زَوْجُہَا الْجَدَّ، أَوْ الْأُمِّ إذَا کَانَ زَوْجُہَا عَمَّ الصَّغِیرِ، أَوْ الْخَالَةِ إذَا کَانَ زَوْجُہَا عَمَّہُ أَوْ أَخَاہُ، أَوْ عَمَّتِہِ إذَا کَانَ زَوْجُہَا خَالَہُ أَوْ أَخَاہُ مِنْ أُمِّہِ لَا یَسْقُطُ حَقُّہَا لِانْتِفَاءِ الضَّرَرِ عَنْ الصَّغِیر ۔ ( تبیین الحقائق : ۴۷/۳، باب الحضانة ، ط: المطبعة الأمیریة الکبری )الولد متی کان عند أحد الأبوین لایمنع الأخر عن النظر إلیہ وعن تعاہدہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیة ۵/۲۷۴رقم: ۷۸۳۵زکریا، الفتاویٰ الہندیة ۱/۵۴۳) قال الحصکفی :(ثُمَّ) أَیْ بَعْدَ الْأُمِّ بِأَنْ مَاتَتْ، أَوْ لَمْ تَقْبَلْ أَوْ أَسْقَطَتْ حَقَّہَا۔۔۔۔۔۔۔۔أَوْ تَزَوَّجَتْ بِأَجْنَبِیٍّ (أُمِّ الْأُمِّ) وَإِنْ عَلَتْ عِنْدَ عَدَمِ أَہْلِیَّةِ الْقُرْبَی (ثُمَّ أُمِّ الْأَبِ وَإِنْ عَلَتْ) بِالشَّرْطِ الْمَذْکُورِ وَأَمَّا أُمُّ أَبِی الْأُمِّ فَتُوٴَخَّرُ عَنْ أُمِّ الْأَبِ بَلْ عَنْ الْخَالَةِ أَیْضًا بَحْرٌ (ثُمَّ الْأُخْتِ لِأَبٍ وَأُمٍّ ثُمَّ لِأُمٍّ) لِأَنَّ ہَذَا الْحَقَّ لِقَرَابَةِ الْأُمِّ (ثُمَّ) الْأُخْتِ (لِأَبٍ) ثُمَّ بِنْتِ الْأُخْتِ لِأَبَوَیْنِ ثُمَّ لِأُمٍّ ثُمَّ لِأَبٍ (ثُمَّ الْخَالَاتِ کَذَلِکَ) أَیْ لِأَبَوَیْنِ، ثُمَّ لِأُمٍّ ثُمَّ لِأَبٍ، ثُمَّ بِنْتِ الْأُخْتِ لِأَبٍ ثُمَّ بَنَاتِ الْأَخِ (ثُمَّ الْعَمَّاتِ کَذَلِکَ) ثُمَّ خَالَةِ الْأُمِّ کَذَلِکَ، ثُمَّ خَالَةِ الْأَبِ کَذَلِکَ ثُمَّ عَمَّاتِ الْأُمَّہَاتِ وَالْآبَاءِ بِہَذَا التَّرْتِیبِ؛ ثُمَّ الْعَصَبَاتِ بِتَرْتِیبِ الْإِرْثِ، فَیُقَدَّمُ الْأَبُ ثُمَّ الْجَدُّ ثُمَّ الْأَخُ الشَّقِیقُ، ثُمَّ لِأَبٍ ثُمَّ بَنُوہُ کَذَلِکَ، ثُمَّ الْعَمُّ ثُمَّ بَنُوہُ.۔۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۵۶۳/۳، باب الحضانة، ط: دار الفکر، بیروت۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند