عبادات >> حج وعمرہ
سوال نمبر: 151461
جواب نمبر: 151461
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 958-1033/N=10/1438
(۱): شیخ مکی حجازی نے جو مسئلہ بتایا، احناف کے نزدیک وہی صحیح ہے، یعنی: مدینہ منورہ یا آفاق میں کہیں اور کا باشندہ جب مکہ مکرمہ کے ارادے سے میقات سے گذرے گا تو اس پر حج یا عمرے کا احرم باندھنا ضروری ہوگا خواہ اس کا بنیادی ارادہ حج یا عمرے کا نہ ہو؛ بلکہ مکہ مکرمہ میں کسی رشتہ دار سے ملاقات کا ہو یا کوئی اور ضرورت ہو۔ اور حنفیہ کے علاوہ دیگر مسلک کے لوگ اپنے مسلک کے مطابق عمل کریں گے، حنفیہ کو ان سے کچھ تعرض کرنے کی ضرورت نہیں۔
وحرم تأخیر الإحرام عنھا کلھا لمن أي: لآفاقي قصد دخول مکة یعنی: الحرم ولو لحاجة غیر الحج(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳:۴۸۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، من أتی میقاتاً بنیة الحض أو العمرة أو دخول مکة أو دخول الحرم لا یجوز لہ أن یجاوزہ إلا بإحرام (البحر العمیق، ص ۶۱۷)۔
(۲): مدینہ منورہ یا آفاق میں کسی اور جگہ سے مکہ مکرمہ جانے والا احرام کے بغیر میقات سے نہیں گذرسکتا، ورنہ اس پر ایک دم اور ایک حج یا عمرہ واجب ہوگا؛ البتہ اگر دوبارہ میقات واپس آکر حج یا عمرے کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ گیا تو دم ساقط ہوجائے گا۔
آفاقي مسلم بالغ یرید الحج ولو نفلاًأو العمرة …… وجاوز وقتہ …ثم أحرم لزمہ دم کما إذا لم یحرم فإن عاد إلی میقات ما ثم أحرم ……سقط دمہ الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، باب الجنایات، ۳:۶۲۰- ۶۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،فالمراد بقولہ:”إذا أراد الحج أو العمرة“ إذا أراد مکة اھ ملخصاً عن الشرنبلالیة، ولیس المراد بمکة خصوصھا؛ بل قصد الحرم مطلقاً موجب للإحرام کما مر قبیل فصل الإحرام وصرح بہ فی الفتح وغیرہ (رد المحتار، ۴:۶۲۱)، وإذا جازو المحرم أحد المواقیت علی الوجہ الذي ذکرنا ودخل مکة بغیر إحرام فعلیہ حجة أو عمرة قضاء ما علیہ ودم لترک الوقت (البحر العمیق، ص ۶۶۲)۔
(۳): جی ہاں! جیسا کہ اوپر نمبر ایک میں لکھا گیا۔
(۴): اگر میقات سے گذرتے وقت ان کا ارادہ حرم شریف کی حدود میں جانے کا نہ ہو؛ بلکہ ان کا ارادہ یہ ہو کہ حدود حرم سے باہر رہ کر رشتہ دار کو وہیں بلالیں گے اور ملاقات کرکے واپس آجائیں گے تو ان کے لیے احرام کے بغیر میقات سے گذرنا جائز ہوگا؛ کیوں کہ جو شخص مکہ مکرمہ ، یعنی: حدود حرم کے ارادے سے میقات سے گذرے ، اس پر حج یا عمرے کا احرام ضروری ہوتا ہے، اور جس کا ارادہ حدود حرم میں جانے کا نہ ہو ؛ بلکہ حدود حرم سے باہر حل ہی میں رہنے کا ہو تو وہ حل کے لیے میقات سے بلا احرام گذرسکتا ہے۔
أما لو قصد موضعاً من الحل کخلیص وجدة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳:۴۸۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”أما لو قصد موضعاً من الحل“: مما بین المیقات والحرم (رد المحتار)۔
(۵): جی ! نہیں، جیسا کہ اوپر نمبر ایک میں ذکر کیا گیا۔
(۶):اس کا جواب بھی اوپر آگیا ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند