عقائد و ایمانیات >> فرق ضالہ
سوال نمبر: 36850
جواب نمبر: 36850
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 408=167-3/1433 یہ ترکیب جو سوچی گئی ہے وہ تنہا آپ کی سوچ ہے یا دونوں طرف کے حضرات اس میں شامل ہیں، اگر تنہا آپ کی اسکیم ہے تو اس کو پوری طرح انجام دے کر بلکہ ملک وبیرون ملک تمام معتبر دارالافتاء سے فتاویٰ حاصل کرکے شدید اختلاف کو کس طرح ختم کرلیں گے؟ ساری دنیا کے معتبر دارالافتاء بشمول حرمین شریفین زادہما اللہ شرفا وکرامة کے فتاویٰ تو آج بھی موجود ہیں مفصل ومختصر، مدلل ومبرہن مطبوعہ وغیرمطبوعہ بے شمار فتاویٰ مستقلاً بھی ہیں اور رسائل وکتب میں بھی ہیں، ان سب کو جمع کرکے اگر کسی عدالت میں آپ جائیں گے تو عدالت سے ان کی منظوری کیا کہہ کر کرائیں گے؟ پھر عدالت کے جج صاحبان دلائل میں غور کرکے نہ معلوم کس طرح کا ججمینٹ دیں گے؟ اور ان ججوں کا فیصلہ پھر بھی قاطع نزاع ہوگا یا نہیں؟ ان جیسے سب امور پر دونوں طرف کے حضرات مل بیٹھ کر غور کرتے تو بہتر ہوتا، ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر دونوں طرف کے حضرات یہ طے کرلیں کہ حضرت سید الانبیاء والمرسلین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور جاں نثار حضرات صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جو معمولِ مبارک ہو اس کو دونوں طرف کے نمازی معمول بنالیں۔ (ب) اسی طرح دونوں طرف کے حضرات سے بہت اطمینان کے ساتھ معلوم کیا جائے کہ درمیانِ اقامت یا شروع اقامت سے کھڑا ہونا فرض ہے یا واجب، سنت ہے یا مستحب، مکروہ ہے یا ناجائز؟ پھر جس فریق کے نزدیک اس کا جو درجہ ہے اگر اس کے خلاف نمازیوں میں سے کوئی نمازی عمل کرلے تو شرعی اعتبار سے اس کی کیا سزا ہے؟ یہ امور طے کرکے دونوں فریق سے اس پر دستخط کرالیں اور پھر وہ تحریر معتبر دارالافتاء میں بھیجیں اور جہاں بھیجنے کے لیے دونوں طرف کے لوگ لکھ کر دیں وہاں وہاں سے جوابات (فتاویٰ) منگالیں، پھر چار چار ایسے حضرات کو دونوں طرف کے لوگ اپنی اپنی طرف سے طے کریں کہ جو دلائل پر گہری نظر رکھتے ہوں وہ آٹھ حضرات ان سب فتاویٰ کو ملحوظ رکھ کر اپنا متفقہ فیصلہ تحریر کردیں ایسا کرلینے پر ان شاء اللہ شدید اختلاف بہت حد تک ختم ہوجائے گا اور عجب نہیں کہ بالکل ہی نزاع واختلاف ملیامیٹ ہوجائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند