• عقائد و ایمانیات >> فرق ضالہ

    سوال نمبر: 3635

    عنوان:

    میرا ایک غیر مقلد ( اہل حدیث ) دوست ہے، اس کا کہنا ہے کہ قرآن اور حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہم نماز کے بعد جماعت کے ساتھ تسبیح پڑھ سکتے ہیں ، ہلکی آواز میں بھی یہ حرام ہے ۔وہ یہ بھی کہہ رہاہے کہ کچھ احادیث میں ہے کہ ایک دن کچھ صحابہ کرام مسجد میں تسبیح یا قرآن پڑرہے تھے ، اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کو طعنہ دے کر مسجد سے باہر لائے ۔ میں نے دارالعلوم دیوبند سے فارغ بہت سارے علمائے کرام سے رابطہ کیااور میں نے ان کو ساری باتیں بتائی ۔اس پر ان کا جواب ہے کہ نماز کے بعد مسجدمیں جماعت کے ساتھ یا ضبط اورانضباط کے ساتھ دھیمی آواز میں تسبیح پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ خاص دنوں میں جیسے شب قدر ، شب برات، وغیر ہ میں ہم مائک استعمال کرسکتے ہیں ، ہر وقت نہیں ۔ میں اپنے دوستوں کی غلط فہمی کو دور کرناچاتاہوں مگر وہ قر آ ن یا مستند حدیث کا حوالہ مانگتے ہیں ۔ بر اہ کرم، جواب دیں۔

    سوال:

    میرا ایک غیر مقلد ( اہل حدیث ) دوست ہے، اس کا کہنا ہے کہ قرآن اور حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہم نماز کے بعد جماعت کے ساتھ تسبیح پڑھ سکتے ہیں ، ہلکی آواز میں بھی یہ حرام ہے ۔وہ یہ بھی کہہ رہاہے کہ کچھ احادیث میں ہے کہ ایک دن کچھ صحابہ کرام مسجد میں تسبیح یا قرآن پڑرہے تھے ، اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کو طعنہ دے کر مسجد سے باہر لائے ۔ میں نے دارالعلوم دیوبند سے فارغ بہت سارے علمائے کرام سے رابطہ کیااور میں نے ان کو ساری باتیں بتائی ۔اس پر ان کا جواب ہے کہ نماز کے بعد مسجدمیں جماعت کے ساتھ یا ضبط اورانضباط کے ساتھ دھیمی آواز میں تسبیح پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ خاص دنوں میں جیسے شب قدر ، شب برات، وغیر ہ میں ہم مائک استعمال کرسکتے ہیں ، ہر وقت نہیں ۔ میں اپنے دوستوں کی غلط فہمی کو دور کرناچاتاہوں مگر وہ قر آ ن یا مستند حدیث کا حوالہ مانگتے ہیں ۔ بر اہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 3635

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 575/ ل= 575/ ل

     

    بے شمار احادیث سے اس کا ثبوت ہے نمونہ کے طور پر دو چار حدیث لکھ دیتا ہوں جس سے واضح ہوجائے گا کہ اجتماع ساتھ ذکر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر تفصیل درکار ہو تو فضائل اعمال میں مذکور فضائل ذکر کا مطالعہ کرلیا جائے۔ قرآن شریف میں ہے: وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہُ الآیة ترجمہ: اپنے آپ کو ان لوگوں کے پاس بیٹھنے کا پابند کیجیے جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: عن أبي ھریرة رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللہ تعالیٰ أنا عند ظن عبدي بي إلی قولہ علیہ السلام وإن ذکرني في ملأ ذکرتُہ في ملأ خیر منھم الخ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں بندہ کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یادکرتا ہوں، اور اگر وہ میرا مجمع میں ذکر کرتا ہے تو میں اس مجمع سے بہتر یعنی فرشتوں کے مجمع میں تذکرہ کرتا ہوں (بخاری شریف: ۲/۱۱۰۱) اس حدیث سے بھی جماعت کے ساتھ ذکر کرنے کا پتہ چلتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے: عن أبي ھریرة و أبي سعید قالا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا یقعد قوم یذکرون اللہ إلا حفتھم الملائکة وغشیتھم الرحمة ونزلت علیھم السکینة وذکرھم اللہ فیمن عندہ رواہ مسلم (مشکوٰة: ج۱ص۱۹۶) حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جو جماعت اللہ کے ذکر میں مشغول ہو فرشتے اس جماعت کو سب طرف سے گھیرلیتے ہیں اور رحمت ان کو ڈھانک لتی ہے اور سکینہ ان پر نازل ہوتی ہے اور اللہ جل شانہ ان کا تذکرہ اپنی مجلس میں تفاخر کے طور پر کرتے ہیں۔ پتہ چلا کہ ایک جگہ بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرنا کس قدر فضیلت رکھتا ہے، پتہ چلا کہ ایک جگہ بیٹھ کر ذکر کرنا جائز ہے، البتہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شب قدر، شب براء ت وغیرہ میں ذکر کے لیے مائک استعمال کرسکتے ہیں یہ درست نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند