عبادات >> ذبیحہ وقربانی
سوال نمبر: 176257
جواب نمبر: 176257
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:534-144T/sn=6/1441
اگر یہ شخص کسی سے( خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم )قرض لے کر قربانی میں شریک ہوجائے تب تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، سب کی قربانی بلاشبہ درست ہوجائے گی۔ اگر قرض کا پیسہ نہ ہو ؛ بلکہ ناچ گانے ہی سے حاصل شدہ رقم ہو تو اس کے ذریعے قربانی کرنا شرعا جائز نہیں ہے، یہ کسب خبیث ہے اور عبادات میں پاکیزہ مال صرف کرنا چاہیے ؛ ہاں اگر پھر بھی وہ اسی رقم سے قربانی میں شریک ہوجائے تو اس کا فریضہ ادا ہوجائے گا گو عند اللہ مقبول نہ ہو نیز مابقیہ شرکا کی بھی قربانی درست ہوجائے گی۔ فقہائے کرام کی عبارات سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔
وقد یتصف بالحرمة کالحج بمال حرام.........(قولہ کالحج بمال حرام) کذا فی البحر والأولی التمثیل بالحج ریاء وسمعة، فقد یقال إن الحج نفسہ الذی ہو زیارة مکان مخصوص إلخ لیس حراما بل الحرام ہو إنفاق المال الحرام، ولا تلازم بینہما، کما أن الصلاة فی الأرض المغصوبة تقع فرضا، وإنما الحرام شغل المکان المغصوب لا من حیث کون الفعل صلاة لأن الفرض لا یمکن اتصافہ بالحرمة، وہنا کذلک فإن الحج فی نفسہ مأمور بہ ، وإنما یحرم من حیث الإنفاق، وکأنہ أطلق علیہ الحرمة لأن للمال دخلا فیہ، فإن الحج عبادة مرکبة من عمل البدن والمال کما قدمناہ، ولذا قال فی البحر ویجتہد فی تحصیل نفقة حلال ، فإنہ لا یقبل بالنفقة الحرام کما ورد فی الحدیث ، مع أنہ یسقط الفرض عنہ معہا ولا تنافی بین سقوطہ، وعدم قبولہ فلا یثاب لعدم القبول ، ولایعاقب عقاب تارک الحج. اہ.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/ 453، مطلب فیمن حج بمال حرام،ط: زکریا،دیوبند)
....لوأخرج زکاة المال الحلال من مال حرام ذکر فی الوہبانیة أنہ یجزء عند البعض، ونقل القولین فی القنیة.وقال فی البزازیة: ولو نوی فی المال الخبیث الذی وجبت صدقتہ أن یقع عن الزکاة وقع عنہا اہ أی نوی فی الذی وجب التصدق بہ لجہل أربابہ، وفیہ تقیید لقول الظہیریة: رجل دفع إلی فقیر من المال الحرام شیئا یرجو بہ الثواب یکفر، ولو علم الفقیر بذلک فدعا لہ وأمن المعطی کفرا جمیعا.(الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/ 219، ط: مطلب فی التصدق من المال الحرام،ط: زکریا، دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند