• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 57453

    عنوان: میں نے بیماری آنے پر اپنے علاج کے لیے صدقہ دیا اور اس صدقہ پر مطمئن رہا (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر مطمئن رہا) اور انگریزی علاج نہیں کرایا لیکن اللہ کی شان اسی بیماری میں میری موت آگئی۔ یہ موت شہادت والی ہے یا حرام؟

    سوال: میں نے بیماری آنے پر اپنے علاج کے لیے صدقہ دیا اور اس صدقہ پر مطمئن رہا (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر مطمئن رہا) اور انگریزی علاج نہیں کرایا لیکن اللہ کی شان اسی بیماری میں میری موت آگئی۔ یہ موت شہادت والی ہے یا حرام؟

    جواب نمبر: 57453

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 224-187/Sn=4/1436-U آپ کے سامنے اللہ ے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کونسی بات تھی جس پر آپ مطمئن رہے؟ اسے لکھتے تو اس پر غور کیا جاتا، بہرحال ”علاج“ کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تداووا فإن اللہ لم یضع داءً إلا وضع لہ شفاء غیر داء واحد الہرم یعنی علاج کراوٴ؛ اس لیے کہ ہرمرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے سوائے موت کے (مشکاة ص:۳۸۸) اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اسبابِ مظنونہ کے درجے میں ڈاکٹر یا حکیم کے ذریعے مرض کا علاج کرانا شرعاً مطلوب ہے، یہ توکل کے منافی نہیں ہے؛ لیکن چوں کہ علاج بہرحال ایک امر ظنی ہے، یقینی نہیں ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص علاج نہ کرائے اور اس بیماری میں وفات پاجائے تو اس پر مواخذہ نہ ہوگا۔ اعلم بأن الأسباب المزیلة للضرر تنقسیم إلے مقطوع بہ کالماء لضرر العطش والخبز المزیل لضرر الجوع و إلی مظنون کالفصد والحجامة وشرب المسہل وسائر أبواب الطب․․․ وإلی موہوم کالکي والرقیة․․․ وأما الدرجة المتوسطة وہي المظنونة کالمداوة بالأسباب الظاہرة عند الأطباء ففعلہ لیس مناقضًا للتوکل الخ (الفتاوی الہندیة: ۵/۳۵۵،ط: زکریا) وفیہا قبل أسطر: والرجل إذا استطلق بطنہ أو رمدت عیناہ فلم یعالج حتی أضعفہ ذلک وأضناہ ومات منہ لا إثم علیہ الخ رہی شہادت والی موت کی بات تو علماء نے احادیث و آثار کی روشنی میں کچھ امراض واسباب کی نشاندہی کی ہے جن میں وفات پانے والا شخص شہادت کا درجہ پائے گا، ان امراض واسباب میں سے بعض یہ ہیں (۱) پیٹ کی بیماری (استسقاء یا اسہال) (۲) نمونیہ (۳) مرگی (۴) بخار (۵) آگ میں جلنے یا پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے موت واقع ہوجانا (۶) ولادت کے وقت موت (۷) اچھو لگنے سے موت واقع ہوجانا (۸) زہریلے جانور کے ڈسنے سے ہونے والی موت، وغیرہ۔ وکل ذلک في الشہید الکامل وإلا فالمرتث شہید الآخرة وکذا الجنب․․․ والغریق والطریق والغریب والمہدوم علیہ والمطعون والنفساء والمیت لیلة الجمعة وصاحب ذات الجنب (درمختار) أو بالسّلّ ․․․ أو بالصرع أو بالحمّی إلخ (الدر مع الرد: ۳/۱۶۴، باب الشہید ط: زکریا) اور دیکھئے: احکامِ میت موٴلفہ عارف باللہ ڈاکٹر محمد عبدالحی صدیقی عارفی صاحب (ص: ۱۱۳، ۱۱۴)؛ لہٰذا جو شخص اس طرح کی بیماری میں وفات پائے گا اسے آخرت میں شہادت کا درجہ حاصل ہوگا، خواہ اس نے علاج کرایا ہو یا نہ کرایا ہو؛ اس لیے کہ فقہاء نے علاج کے ساتھ اسے مقید نہیں کیا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند