• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 40339

    عنوان: میرا سوال یہ ہے کے علما سوکون ہیں اور ان کی پہچان کیسے کی جائے؟

    سوال: میرا سوال یہ ہے کے علما سوکون ہیں اور ان کی پہچان کیسے کی جائے؟

    جواب نمبر: 40339

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1241-1267/D=8/1433 علمائے سو کی مختلف پہچان احادیث میں بیان کی گئی ہیں، مثلاُ ایک حدیث میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من طلب العلم لیماري بہ السفہاء أو یصرف بہ وجوہ الناس إلیہ أدخلہ النار رواہ الترمذي (مشسکاة: ۳۴) جس شخص نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم علم لوگوں سے جھگڑا کرے یا لوگوں کو علم کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرے، اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم میں داخل کریں گے۔ دوسری روایت میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تعلم علما مما یبتغی بہ وجہ اللہ لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرَضًا من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة یعنی ریحہا رواہ احمد (مشکاة: ۳۵) جس شخص نے اس علم کو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیکھا جاتا ہے اس لیے سیکھا تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کمائے ایسا شخص جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ تیسری حدیث میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اتقوا الحدیث عني إلا ما علمتم فمن کذب علي متعمدًا فلیتبوأ مقعدہ من النار رواہ الترمذي (مشکاة: ۳۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری جو حدیث تمھیں معلوم ہو وہی بیان کرو، اس لیے کہ جس نے جھوٹ بات میری طرف منسوب کرکے نقل کیا اسے اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھنا چاہیے۔ چوتھی حدیث میں ہے: قال سأل رجل النبيَ صلی اللہ علیہ وسلم عن الشر فقال لا تسألوني عن الشر وسلوني عن الخیر یقول ثلاثا ثم قال ألا إن شر الشر شرار العلماء وإن خیر الخیر خیار العلماء رواہ الدارمي۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے شر کے بارے میں سوال مت کرو بلکہ خیر کے بارے میں سوال کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شر میں بدتر شر علمائے سو کا شر ہے اور تمام بھلائیوں میں اعلی درجہ کی بھلائی علماء کا خیر ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یقینی طور پر یہ بات معلوم ہوئی کہ آدمی کو شر کے بارے میں سوال نہیں کرنا چاہیے بلکہ خیر کے بارے میں سوال کرنا چاہیے، لہٰذا آپ کو بھی علمائے شر کی علامات کے بجائے علمائے حق کی پہچان معلوم کر نی چاہیے تھی کیونکہ اسی سے آپ کا دینی اور دنیوی فائدہ وابستہ ہے آپ علمائے حق کو علامات کے ذریعہ پہچان کر ان سے مربوط اور منسلک رہیں گے تو اس سے آپ کو دین اور دنیا کا فائدہ حاصل ہوگا، علمائے سو کی علامات معلوم بھی ہوگئیں تو اس کا انطباق کرنا آسان نہیں، اور نہ یہ ہرشخص کے بس کی بات ہے، بلکہ یہ علمائے متبحرین کا کام ہے، اور اگر علامات سے اندازہ لگاکر آپ نے کسی کو عالم سوء سمجھ لیا اور اس سے بدگمان ہوگئے تو اس میں بھی آپ کے لیے خطرہ ہے کہ اگر وہ عند اللہ ایسا نہ ہوا جیسا آپ سمجھ رہے ہیں تو پھر آپ کے دین وایمان کے لیے سخت مہلک ثابت ہوگا، لہٰذا خواہ مخواہ اس تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں کون عالم سو ہے بلکہ اس تحقیق کی ضرورت ہے کہ کون عالم حق ہے تاکہ اس سے فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ آپ جسمانی صحت کے لیے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں تو یہ معلوم کرتے ہیں کہ اس مرض کا اچھا ڈاکٹر کون کون ہے، اور اچھے تجربہ کار لوگ کس ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، اس تحقیق میں نہیں پڑتے کہ شہر میں کتنے غیر مستند ڈاکٹر یا اناڑی جھولا چھاپ معالج ہیں؟ پس اپنے کام کی بات دریافت کرنا چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند