• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 159416

    عنوان: مدارس میں ملٹی میڈیا موبائل توڑنے کا قانون یا وقتی ہدایت کا کیا حکم ہے؟

    سوال: شرع متین کی روشنی میں جواب چاہتے ہوئے صورت مسئلہ بیان کرنا چاہتا ہوں صورت مسئلہ یہ ہے کہ مدرسہ کے مہتمم صاحب سفر پر جاتے ہوئے ایک قدیم استاذ کو مدرسہ کی ذمہ داری سونپ کر جاتے ہیں ۲۵ دن کیلئے اس دوران جب طلبہ میں فلم بینی جیسی خرابیوں کی اطلاع ملنے پر ذمہ دار استاذ اور دیگر اساتذہ نے مل کر طلبہ کے سامان کی جانچ کی تو اسمیں تقریبا ۱۵ موبائل برآمد ہوئے جبکہ طلبہ کو بارہا تنبیہ کی گئی تھی اس لئے ذمہ دار استاد اور دیگر اساتذہ کے مشورہ سے سارے موبائل فونس کو تادیبا ضائع کردیا سفر سے واپسی پر مہتمم صاحب یہ چاہ رہے ہیں کہ اساتذہ کی تنخواہ یا بونس کو بقدر نقصان وضع کرکے طلبہ کے نقصان کی بھرپاء کی جائے اس لیے کہ ذمہ دار استاد اور دیگر اساتذہ نے من مانی کی ہے کیا تنبیہا اساتذہ کا یہ اقدام صحیح ہے ؟ اس پر مہتمم کی طرف سے کیا جانے والا رد عمل شرعی اعتبار سے درست ہے ؟ کیا یہ طلبہ کے سامنے اساتذہ کو شرمسار کرنا نہیں ہے ؟ کیا کسی استاذ کو ذمہ داری دینے کے بعد اس طرح کی کارروائی درست ہے ؟ براہ کرم ہر زاویہ سے جواب پر مطلع فرمائیں۔

    جواب نمبر: 159416

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:658-736/N=8/1439

    (۱): ملٹی میڈیا موبائل صرف ناجائز کاموں کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ وہ بہت سے جائز کاموں میں بھی استعمال ہوتا ہے ؛ اس لیے ملٹی موبائل شریعت کی نظر میں مال متقوم ہے، اس کا ضائع کرنا جائز نہیں؛ اس لیے صورت مسئولہ میں تنبیہ کی غرض سے اساتذہ نے جو قدم اٹھایا، وہ ناجائز ہے ؛ کیوں کہ طلبہ کی فلم بینی وغیرہ کی بندش کے لیے موبائل کا جمع کرلینا کافی تھا، توڑنا ضروری نہیں تھا، پس جن اساتذہ نے موبائل توڑکر ضائع کیے ہیں، ان پر توڑے ہوئے موبائلس کا ضمان واجب ہے؛ البتہ اگر بالغ طلبہ اپنی مرضی وخوشی سے معاف کردیں تو معاف ہوجائے گا۔

    وفي ھذہ الدرجة أدبان: …الثاني أن یقتصر في طریق التغییر علی القدر المحتاج إلیہ ……وحیث کانت الإراقة متیسرة بلا کسر فکسرہ لزمہ الضمان (إحیاء العلوم للغزالي مع الإتحاف، ۷: ۴۵، ۴۶، ط: موٴسسة التاریخ العربي بیروت)۔

    (۲): جی ہاں! موبائل توڑے جانے پر مہتمم کا رد عمل درست ہے۔

    (۳):یہ اساتذہ کو شرمسار کرنا نہیں ہے؛ بلکہ شرعی مسئلہ پر عمل ہے۔

    (۴): جب کوئی استاد مہتمم کا نائب بنایا جائے یا مدرسہ کی کوئی اور اہم ذمہ داری اسے سپرد کی جائے تو وہ حدود شرع کی رعایت کے ساتھ ذمہ داری نباہنے کا پابند ہوتا ہے ، خلاف شرع اس کا کوئی قانون یا ہدایت معتبر نہیں ہوتی۔ اور اگر ا س نے خلاف شرع کوئی کام کیا تو وہ اس میں شرعاً ماخوذ وگنہگار ہوگا ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند