متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 5883
کوئی تالیف یا مضمون جو کسی کی زندگی میں اس کے نام سے نہیں شائع ہوئی ہو اور نہ اس کا مرتب کرنا اس سے مشہور ہو، بلکہ اس کی وفات کے بعد اس کے کام کو جمع کرکے اس کے نام سے شائع کیا گیا ہو، اگر اس میں کوئی غلطی پائی جائے تو کیا اس غلطی کو اس شخص کی طرف منسوب کرکے کوئی فتوی جاری کرا جاسکتا ہے یا وہ شخص اس غلطی سے بری الذمہ ہوگا؟
کوئی تالیف یا مضمون جو کسی کی زندگی میں اس کے نام سے نہیں شائع ہوئی ہو اور نہ اس کا مرتب کرنا اس سے مشہور ہو، بلکہ اس کی وفات کے بعد اس کے کام کو جمع کرکے اس کے نام سے شائع کیا گیا ہو، اگر اس میں کوئی غلطی پائی جائے تو کیا اس غلطی کو اس شخص کی طرف منسوب کرکے کوئی فتوی جاری کرا جاسکتا ہے یا وہ شخص اس غلطی سے بری الذمہ ہوگا؟
جواب نمبر: 5883
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 644=602/ ل
اگر کسی شخص کے مضامین کو اس کے مرنے کے بعد جمع کرکے شائع کیا جائے، تو اگر تحقیق سے پتہ چل جائے کہ یہ اسی کا مضمون ہے تو اس کی طرف منسوب کرنا جائز ہوگا۔ اور اس میں کوئی غلطی آئے تو اس کی دو شکلیں ہیں ایک تو کتابت کی غلطی، دوسری مضمون کی غلطی، کتابت کی غلطی کی اصلاح کی جاسکتی ہے، مثلاً کوئی نقطہ رہ جائے یا اوپر نیچے ہوجائے تو اس کو درست کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مضمون کی غلطی کا مسئلہ ہے تو اس کی اصلاح اصل کتاب میں نہ کی جائے بلکہ اس پر نوٹ لکھ کر حاشیہ میں عبارت کی تصحیح کی جائے کیونکہ ممکن ہے انھوں نے جو سمجھا ہو وہی صحیح ہو، یا ان کی وہی رائے ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند