• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 605094

    عنوان:

    گاؤں میں جمعہ قائم كرنے كے لیے كتنی آبادی ضروری ہے؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسلئہ کے بارے میں ہمارا گاؤں جس کے چاروں طرف تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر بازار ہیں جہاں تمام ضروریات زندگی میسر ہے اور پانچ کلومیٹر شمال مغرب سائیڈ پر اتوار بازار بھی لگتا ہے لیکن ہمارے مسجد کے ساتھ دو کریانہ سٹور ہیں جہاں کپڑوں اور جوتوں سوا تقریباً سب ضروریات زندگی میسر ہے اور آبادی تقریباً ڈیڑھ مربع کیلومیٹر دو ہزار بالغ مرد عورت ہے اور گھر ایک ساتھ نہیں ہیں بلکہ دس بارہ گھروں پر مشتمل ایک بستی درمیان میں کھیت باغات ہیں پھر دس بارہ گھروں مستقل دوسری بستی اسی طرح بستیاں ہیں اور مسجد سو سال پرانی ہے جمعہ بھی تقریباً تب سے ہو رہا ہے درمیان میں کبھی کبھار نہیں بھی ہوتا رہا لیکن اب دس پندرہ سال سے مسلسل ہو رہا ہے کچھ لوگ گھروں میں ظہر کی نماز پڑھتے ہیں ایک مفتی صاحب نے کہا تھا کہ آج زمانہ بدل گیا ہے دس منٹ میں آدمی کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے تو یہاں جمعہ پڑھ سکتے ہیں تو۔

    جواب نمبر: 605094

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:826-263/sn=11/142

     گاؤں میں جواز جمعہ کے لیے کم از کم تین چار ہزار کی آبادی(مردووعورت، بالغ نابالغ، مسلم غیر مسلم سب ملاکر ) ضروری ہے نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں آثار مدنیت (مثلا سڑکیں، کشادہ گلیاں ، بازار اورپولس چوکی وغیرہ)بھی موجود ہوں ۔ جو گاؤں اس طرح کا نہ ہو اس میں جمعہ جائز نہیں ہے، وہاں کے لوگ جمعہ کے دن بھی دیگر ایام کی طرح ظہر کی نماز باجماعت ادا کریں گے ۔آپ نے مذکور فی السوال گاؤں کی جو تفصیل سوال میں تحریر کی ہے،اس سے اس کی مکمل نوعیت واضح نہیں ہوپارہی ہے؛ آپ حضرات قریب کے کسی معتبر ادارے سے دو مستندمفتیان کو بلا کر گاؤں کا اچھی طرح معائنہ کرادیں، بعد معائنہ حضرات مفتیان تحریری طور پر جمعہ کے جواز یا عدم جواز سے متعلق جو حکم شرعی بتلائیں اس کے مطابق عمل درآمد کریں۔

    قال فی شرح المنیة والحد الصحیح ما اختارہ صاحب الہدایة أنہ الذی لہ أمیر وقاض ینفذ الأحکام ویقیم الحدود وتزییف صدر الشریعة لہ عند اعتذارہ عن صاحب الوقایة حیث اختار الحد المتقدم بظہور التوانی فی الأحکام مزیف بأن المراد القدرة علی إقامتہا علی ما صرح بہ فی التحفة عن أبی حنیفة أنہ بلدة کبیرة فیہا سکک وأسواق ولہا رساتیق وفیہا وال یقدر علی إنصاف المظلوم من الظالم بحشمتہ وعلمہ أو علم غیرہ یرجع الناس إلیہ فیما یقع من الحوادث وہذا ہو الأصح اہ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار)3/45، ط:زکریا)نیز دیکھیں: امداد الفتاوی1/484، وبعدہ،ط:کراچی،مجموعہ فتاوی عبد الحی،ص:222،ط: مکتبہ تھانوی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند