• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 606571

    عنوان:

    اپنی زندگی میں صرف لڑکیوں کو حصہ دینا؟

    سوال:

    سوال : ہم لوگ 4 بھائی اور 4 بہنیں ہیں، میں سب سے بڑا لڑکا ہوں ، 1997 سے میں اپنے والد صاحب کے کاروبار میں حاتا رہتا تھا ، میرا دوسرا بھائی بھی ساتھ میں شریک تھا، دو بھائی تعلیم حاصل کر رہے تھے ، 2006 میں ایک بھائی تعلیم حاصل کر کے کاروبار میں شریک ہو گیا الحمداللہ کارو بار میں ترقی ہونے لگی، 5یا6 سال بعد چوتھا بھائی بھی کاربار میں شریک ہو گیا سب کچھ والد صاحب کی سرپرستی میں چل رہا تھا، فیملی بڑی ہوتی گئی، اس لیے اپنی اپنی فیملی کے ساتھ الگ الگ رہنے لگے ، 2013ء تک میں میری حیثیت کے مطابق جو ہوتا تھا وہ رقم دیدیتا تھا والد صاحب نے سب بھائیوں کو الگ الگ یونٹ میں بانٹ دیا کیوں کہ ہم سب کا کام ایک دوسرے سے منسلک تھا بٹوارے کی کوئی بات نہیں تھی ، میرے والد صاحب کہتے تھے کہ بٹوارہ میرے اِس دُنیا سے جانے کے بعد ہو گا بہنوں کی بھی شادی ہو گئی، 2013ء سے میں نے رقم دینا بند کر دیا کیوں کہ میری مالی حالت خراب ہونے لگی تھی، آج سے 6 سال پہلے والد صاحب کو فالج کا اثر ہوگیا، پھر کچھ دنوں بعد واپس کارخانے جانے لگے ، ابھی 5 مہینے پہلے ایک میٹنگ بلائی اور کہنے لگے کہ بہنوں کا جو حصہ نکلتا ہے انہیں دیدو ، میں نے بھی کہا میرا جو حصہ نکلے وہ مجھے بھی دیدیں، کہنے لگے بھائیوں کا بٹوارہ میرے اِس دُنیا سے جانے کے بعد ہوگا، لیکن ابھی چند دن پہلے پھر ایک میٹنگ بلائی، اور کہنے لگے کہ میں کچھ کر نہیں پاتا ہوں، بہنوں کا حصہ دیدو، اب میں بری ہونا چاہتا ہوں دُنیا دری سے اور تم لوگ میرے مرنے کے بعد اپنا حصہ لے لینا، میرتیسرا بھائی جو عالم ہے دیوبند سے فارغ ہے وہ بولنے لگا کی میں فتوی لیکر ایک مفتی صاحب سے آیا ہو وہ مفتی صاحب نے فتوی دیا ہے کی جب باپ کہہ دے کی میں بڑی ہوتا ہو اپنی ذمہ داری سے تو اب سے جو جس کے حصے میں ہے اس کی کمائی کا وہ ملک رہے گا . اگر ایسا فتوی ہے تو بہنوں کا حصہ کون دے گا اور والد صاحب تو کہہ رہے ہے بٹوارہ میرے اِس دُنیا سے جانے کے بعد . اور فیلواقت اللہ میرے 3 نو بھائی کو زیادہ نواز رہے ہے سب سے کمزور میری کڑی ہے اب جو کما کما کر اپنے پاس رکھے گا وہ بہنوں کا حق کیسے دے گا برائے ماحیرباانی اِس مسئلے کا حَل Nیکالینجی مہربانی ہو گی

    جواب نمبر: 606571

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 188-49T/M=03/1443

     تیسرے بھائی جو عالم ہیں وہ جس فتوے کی بات کہہ رہے ہیں اس کی نقل منسلک کرتے تو بہتر تھا تاکہ پتہ چلتا کہ سوال کیا پوچھا گیا ہے اور مفتی صاحب نے کیا جواب دیا ہے اب وہ فتوی ہمارے سامنے نہیں ہے تو اس کے متعلق کچھ عرض کرنا مشکل ہے۔ بہرحال کاروبار کی ملکیت اور بٹوارے کے تعلق سے عرض ہے کہ اگر کاروبار میں بیٹے معاون کے طور پر کام کرتے تھے تو کاروبار کی ملکیت والد صاحب کی ہے، اگر والد صاحب حیات ہیں اور وہ زندگی میں اپنی جائیداد و ملکیت کا بٹوارہ نہیں کرنا چاہتے ہیں تو کوئی بات نہیں، زندگی میں ان پر جائیداد و ملکیت کا بٹوارہ لازم و واجب نہیں اور زندگی میں اولاد کا حصہ متعین بھی نہیں چاہے بھائی ہو یا بہن۔ اس لیے والد صاحب کا یہ کہنا کہ ”بہنوں کا جو حصہ نکلتا ہے انہیں دیدو“ اس کی مراد واضح نہیں، اگر والد صاحب زندگی میں صرف بہنوں کو حصہ دینا چاہتے ہیں، بھائیوں کو نہیں تو یہ عدل کے خلاف ہے۔ زندگی میں بٹوارے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ تمام اولاد (مذکر و مونث) کو برابر حصہ دیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند