• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 603024

    عنوان:

    وراثت سے اولاد کو بے دخل کرنا

    سوال:

    میرا سوال ہے کہ کیا باپ اپنے بیٹے کو وراثت سے نے دخل کرسکتا ہے یا نہیں؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر بیٹا اپنے شادی کے پیسے باپ کے پاس جمع کروائے اور باپ اُن پیسوں کو دوسری بیوی بچوں کو کھلائے تو کیا وہ بیٹا باپ سے پیسے لینے کا حق رکھتا ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 603024

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:558-525/L=8/1442

     مذکورہ بالا صورت میں باپ کا اپنے بیٹے کو اپنی جائداد سے بے دخل (عاق) کرنا شرعا جائز نہیں اور نہ ہی شرعا اس کا کوئی ثبوت ہے،اگر کسی نے ایسا کر بھی دیا تب بھی بیٹا اپنے شرعی حصہ سے محروم نہیں ہوگا؛بلکہ اگر وہ اپنے والد کی وفات کے وقت زندہ رہتا ہے تو شرعی حصہ بدستور اس کو ملے گا۔

    (۲)اگر بیٹے نے وہ پیسے باپ کو جمع کرنے کی نیت سے دئے تھے جیسا کہ بظاہر سوال سے پتہ چل رہا ہے تو وہ پیسہ باپ کے پاس امانت ہوگا جس کو دوسرے بیوی بچوں پر خرچ کرنا جائز نہ ہوگا اور اگر خرچ کر بھی دیا تو بیٹے کو ان پیسوں کے مطالبے کا حق ہوگا ۔

    عن انس قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنة یوم القیامة *رواہ ابن ماجہ(مشکوة المصابیح: باب الوصایا /۱/ ۶۶۲/ ط قدیمی) عن ابی ہریرة... کل احد احق بمالہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین) لا یناقضہ"انت ومالک لابیک"لان معناہ اذا احتاج لمالہ اخذہ،لا انہ یباح لہ مالہ مطلقا(التیسیر بشرح الجامع الصغیر:۲/ ۰۱۲)وفی حدیث جابر:انت ومالک لابیک. قال ابن رسلان:اللام للاباحة لا للتملیک،لان مال الولد لہ وزکاتہ علیہ وہو موروث عنہ،انتہی"(شرح سنن الترمذی:۲۰/ ۲۶۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند