• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 3115

    عنوان:  وصیت کی کیا اہمیت ہے ؟ کیا وصیت کرنا ضروری ہے؟

    سوال:

    میرے والد صاحب کی عمر ۹۰/ سال ہے ، اب وہ اپنی جائداد کے بارے میں وصیت کرناچاہتے ہیں۔ ان کے پاس تین گھر اور دو تجارتی کمرے (دکان) ہیں ۔ہم سب پانچ بھائی ہیں ( تین بھائی پہلی بیوی سے) اور چار بہنیں ہیں ( تین بہنیں پہلی بیوی سے) ۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد میرے والد صاحب نے اپنی ہی سالی سے شادی کی تھی۔ میں دوسری بیوی کا بیٹا ہوں ۔ میرے دادا ، دادی ، نانا، نانی انتقا ل کر چکے ہیں۔ میراسوال یہ ہے کہ

    (۱) وصیت کی کیا اہمیت ہے ؟ کیا وصیت کرنا ضروری ہے؟

    (۲) تقسیم جائداد میں کون کوں شامل ہوں گے؟

    (۳) جائداد کی تقسیم کیسے کی جائے گی؟

    (۴ ) کیا میرے والد اپنی مرضی کے مطابق وصیت کر سکتے ہیں؟

    (۵) اگر والد صاحب کی موجود گی میں تمام افراد خانہ( بیوی ، بیٹے اور بیٹیاں ) وصیت کو قبول کرلیں تو کیادرست ہوگا؟

    جواب نمبر: 3115

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1176/ ب= 96/ ب

     

    (۱) اپنی اولاد اور اپنے وارثوں کے لیے وصیت نامہ جائز نہیں ہے، حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے لا وصیّة لوارثٍ: یعنی اپنے کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ اگر وصیت کردی تو وہ باطل ہوگی نافذ نہ ہوگی۔ غیروں کے لیے بھی وصیت ضروری نہیں۔

    (۲) ابھی آپ کے والد محترم حیات ہیں، اپنی تمام جائداد کے مالک و مختار ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی لڑکے یا لڑکی کا ان کی جائداد میں کوئی حق و حصہ نہیں۔ والد صاحب کی وفات کے بعد اولاد حق دار ہوتی ہے، اس لیے ابھی تقسیم جائداد کا سوال لغو اور بے کار ہے۔

    (۳) اگر والد محترم اپنی حیات میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو یہ ہبہ ہوگا او راس میں اپنے لیے اور اپنی بیوی کے لیے بقدر ضرورت جائداد روک کر باقی جائداد ۹/ برابر حصوں میں تقسیم کرکے ایک ایک حصہ تمام اولاد کو دے کر اسے مالک وقابض بنادیں اور خود اس سے باپ دست بردار ہوجائے۔

    (۴) جی نہیں۔

    (۵) اوپر بتایا جاچکا ہے کہ اپنے وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ جب وصیت ہی جائز نہیں تو اسے ورثہ کا قبول کرنا کیونکر صحیح ہوگا؟ وہ وصیت باطل ہوگی اس کا نفاذ صحیح نہ ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند